عام انتخابات، نگران حکومت اورجنرل ہسپتال

اب جبکہ ملک میں جاری ایک دھواں صفت جمہوری بحران ختم ہونے کا وقت قریب ہے اور سپریم کورٹ کی ہدائت پر چیف الیکشن کمشنر نے صدر سے ملاقات کے بعد 8فروری کوملک میں انتخابات کی پتھرپر لکیرجیسی بات کی توثیق بھی کر دی ہے تو یہ طے ہوگیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس دو مہینے ہی ہیں۔ ان مہینوں میں تو جو کچھ ہو گا اس کا پتہ بعد میں چلے گا لیکن گزشتہ کچھ مہینوں سے بہت کچھ ہو گزرا ہے۔ اس بہت کچھ میں کچھ باتیں ایسی بھی ہوئیں جن کا عوام کی خدمت سے زیادہ دوسرے معاملات سے تعلق تھا لیکن اس وقت عوام کی خدمت سے متعلق باتوں کا تذکرہ مقصود ہے۔ باقی صوبوں سے لاہور میں کم کم خبریں ہی آتی ہیں لیکن پنجاب میں تمام صوبائی محکموں کی کارکردگی کو پر لگے ہوئے ہیں۔پنجاب کے نگران وزیر اعلی محسن نقوی نے جس طرح رات دن۔ نہ سوئیں گے نہ سونے دیں گے۔کے مصداق تمام محکموں خاص طور پر ہسپتالوں کے دورے کرکرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا اوررہی سہی کسر ان کے نگران صوبائی وزیروں اور سیکرٹریوں نے پوری کر دی۔ نتیجہ یہ کہ لاہور اور لاہور سے باہر کے ہسپتالوں میں ایک نیا مریض اور ڈاکٹردوست ماحول سامنے آنے لگا۔ بڑے ہسپتالوں کی عماراتی اور کلینیکل ضروریات کو پورا کرنے کے سلسلے میں کوئی کمی نہیں رہنے دی گئی۔اتفاق سے ان کو ہیلتھ سیکرٹری اور معاونین بھی ایسے ملے جنہیں پہلے سے مسائل کا ادراک تھا۔ اس کا نتیجہ صرف لاہورکے ایک ایسے ہسپتال کی طرف سے جاری ہونے والی اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جو دوچار سال پہلے تک لاہور کے ایسے ہسپتالوں میں شمار ہووتا تھا جسے پنجاب میں باہرکے لوگ کم توجہ کے لائق سمجھتے تھے اور سب کا رخ میو ہسپتال یا دوسرے ہسپتالوں کی طرف ہوتا تھا۔ یہ جنرل ہسپتال ہے جس کی کارکردگی اب بہت نمایاں ہے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ جنرل ہسپتال کا سنگ بنیاد ایک سابق آرمی جنرل اور پاکستان کے گورنر جنرل سکندر مرزا کی دوسری بیگم ناہید سکندر مرزا نے1959ءمیں رکھا تھا۔ وہ بھی پہلے ایک begger house کے طور پر اور پھر جنرل پبلک کے علاج معالجے کے مرکزمیں اسے تبدیل کیا گیا۔ یہ جو نیورو سرجری کے مرکز کی اسکی اب شہرت ہے تو یہ منصوبہ بھی کنگ ایڈورڈ سے ملحقہ میو ہسپتال سے یہاں شفت کیا گیا۔ جنرل ہسپتال کو عوامی توجہ کامرکزبنانے میں پرنسپل پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ پروفیسر ڈاکٹر الفرید ظفر کا مرکزی کردار ہے۔ وہ خود ہمہ وقت متحرک رہنے کی شہرت رکھتے ہیں اور جس طرح پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل کی پہلے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی اوراب فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی جیسے بڑے اداروں کے وائس چانسلرکی حیثیت سے شہرت ہے اسی طرح پروفیسر الفرید ظفر پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ کے طور پر انتظامی شہرت رکھتے ہیں ، انہوں نے اعلیٰ سطحی اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب کی پالیسی اور نگران صوبائی وزیر صحت پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کی رہنمائی میں مریضوں کو بہترین طبی سہولیات کی فراہمی لاہور جنرل ہسپتال کے ہیلتھ پروفیشنلز کی اولین ترجیح بن چکی ہے چنانچہ جنرل ہسپتال میں رواں سال کے پہلے 9ماہ کے دوران شعبہ ایمرجنسی اور آو¿ٹ ڈور میں مجموعی طور پر 18لاکھ 18ہزار 665 مریضوں کا علاج کیا گیا جس کیلئے تمام مریضوں کو بلا تفریق معیاری طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی گئی۔جنرل ہسپتال کی اعلیٰ سطح کی کارکردگی کے جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جس میں ایم ایس ڈاکٹر ندرت سہیل و دیگر انتظامی ڈاکٹرز بھی موجود تھے۔پروفیسر الفرید ظفر نے اے ایم ایس اور ڈی ایم ایس کو کہا کہ وہ تمام شعبوں میں باہمی کوآرڈینیشن کو مزید مضبوط اور مستحکم بنا ئیں اور علاج معالجے کیلئے آنے والے مریضوں کے بہتر اور معیاری علاج میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ ڈاکٹرز،نرسز اور پیرا میڈیکس مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آیا کریں کیونکہ خوش اخلاقی بھی مریض کی جلد صحت یابی میں اہم کردار ادا کر تی ہے۔ پرنسپل پی جی ایم آئی نے مزید کہا کہ تمام شعبوں میں مشینری و طبی آلات کو فنکشنل رکھا جائے اور ان ڈور کے ساتھ ساتھ ہسپتال میں قوانین و ضوابط پر پابندی کو یقینی بنایا جائے کیونکہ ڈسپلن کی پابندی کے بغیر ہسپتال کا گراف بلند نہیں ہو سکتا۔یقینا اس کارکردگی کا کریڈٹ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ جنرل ہسپتال ڈاکٹر ندرت سہیل کو بھی جاتا ہے جنہوں نے اجلاس کے شرکاءکو بتایا کہ جنوری تا ستمبر تک 58945مریضوں کو داخل کیا گیا۔110347الٹرا ساو¿نڈ، 74100 ایکسرے ،اور50816 سی ٹی سکین ہوئے جبکہ 12089ڈائیلسز،51174ای سی جی، 4439 گیسٹر و سکوپی پراسیجر ہوئے۔انہوں نے مزید بتایا کہ 1332مریضوں کی شعاعوں سے پتھری تحلیل کی گئی،536نیورو اینجیو گرافی اور251میموگرافی بھی ہوئی۔ ایمرجنسی میں 916254مریض آئے جنہیں بغیر پرچی فیس کے آپریشن کا سامان، ادویات و تشخیصی سہولیات مفت بہم پہنچائی گئیں۔ پروفیسر الفرید ظفرنے کہا کہ سینئر کنسلٹنٹ و جدید طبی سہولیات کی دستیابی سے شہریوں کا ایل جی ایچ پر اعتماد بڑھا جو خوش آئند بات ہے اور امید ہے کہ آئندہ بھی وہ اس معیار کو نا صرف برقرار رکھیں گے بلکہ اس میں مزید اضافہ کیا جائیگا۔ جنرل ہسپتال کی پہلی شہرت ہمیشہ دماغی امراض اور ہیڈ انجری سے وابستہ مسائل کے حل کرنےوالے ادارے کی رہی ہے لیکن اس وقت وہاں کبھی گائنی کے حوالے سے تربیتی سیمینار ہو رہے ہوتے ہیں، کبھی بات آنکھوں کے امراض اور عالمی یوم بصارت کے حوالے سے شعبہ امراض چشم کی سربراہ پروفیسر طیبہ گل ملک کی میزبانی میں تقریب ہورہی ہوتی ہے۔ توکبھی ڈرماٹالوجی کی ہیڈ پروفیسر انیلہ اصغر جلدی امراض کے حوالے سے خواتین کی تربیت میں مصروف نظرآتی ہیں۔ دوسرے شعبوں خاص طورپر نیورو سرجری کے حوالے سے تواسکی خدمات اور مصروفیات سے سب واقف ہیں۔ یہ ایک ہسپتال میں بدلتے ہوئے ماحول کی ایک جھلک ہے لاہور کے دوسرے بڑے ہسپتالوں خاص طورپرمیوہسپتال سروسز ہسپتال گنگا رام ہسپتال میں بھی بڑی تبدیل نظر آ رہی ہے۔ ایک بات البتہ بڑی اہم ہے کہ جس طرح پنجاب میں بعض ڈسٹرکٹ سطح کے ڈی جی پی آرکے اطلاعات کے دفاتر مثال کے طورپر شیخوپورہ کا آفس سوشل میڈیا کا استعمال کرکے محکمانہ سرگرمیوں کو اورمعلومات کو عام شہریوں تک پہنچاتے ہیں اس طرح صرف جنرل ہسپتال لاہور کی طرف سے باقاعدگی سے عوامی راہنمائی کی میڈیا مہم جاری رہتی ہے یہ سلسلہ باقی بڑے ہسپتالوں کو بھی شرو ع کرنا چاہیے۔ بظاہرایک غیرسیاسی اور نگران حکومت کے سربراہ کے طورپر محسن نقوی جو سیاستدان نہیں بلکہ ایک میڈیا ایکسپرٹ اور اورمیڈیا کے ایک بڑے ادارے کے سربراہ ہیں، اگر چند مہینوں میں انتظامی میدان میں بہتر فیصلے کرکے اور اپنے ساتھ اپنی ٹیم کو متحرک کرکے پنجاب میں بہتری کی بنیاد رکھ سکتے ہیں تو جمہوری حکومتیں اور سیاستدان ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔یہ ایک بڑا سوال ہے۔

ای پیپر دی نیشن