انسان کو اپنی طبعی موت کی کا مکمل علم ہے مگر پھر بھی وہ میدان جنگ میں مرنے پر تلا ہوا ہے۔ جنگ گھر یلو اور ملکی دونوں سطح پر بر سر پیکار ہے۔ کیونکہ یہ جنگیں کسی ایک مذہب، فرقے یا خاندان تک محدود نہیں اور اس وقت پورا کرہ عرض میدا ن جنگ بن چکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ خالق کا ئنات نے اپنے تمام انسانوں کو ایک ہی سطح پر رکھ کر انہیں نواز شات سے نوازا ہے خداوند تعالیٰ نے اپنے سب انسانوں کو برابری اور مساوات کے درجے پر رکھا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے اپنے تمام انسانوں کی اشرف مخلوقات کی اعزازی ڈگری کے ساتھ ان کے ہاتھ میں نعمت کا ایک ایسا پرچہ پکڑا دیا ہے جس پر صرف ایک ہی عبارت کندہ ہے ''اچھائی اور سچائی'' خداوند تعالیٰ کی ایک اور نوازش یہ کہ ہے اس نے ہر ملک کی قوم کے لیے ان کے مزاج ان کے آب وہوا اور حالات کے تحت الگ الگ پیغمبر اور کتب ا±تاری ہیں ایک ہی نصاب کے ساتھ مگر انسان نے اپنی خودشیری اور کم علمی میں اس نصابی کتب کو اپنے اپنے سکول بیگ میں بند کر کے رکھ دیا ہے جس پر خاک پڑ چکی ہے اور انسان ایک غبی طالب علم کی طرح نصاب کی کتب کو پڑھتا ہی نہیں کہ کہیں محنت نہ کرنی پڑ جائے اپنے طور پر اسے زندگی اور اس سے وابسطہ معاملات کی جو سمجھ آتی ہے وہ اسی کے مطابق پڑھتا جارہا ہے اور اسی لیے فیل ہوگیا ہے۔ ہر ملک جنگ کی صورتحال سے دو چارہے حالانکہ ان سب آسمانی کتب میں واضح ہے کہ اپنا دفاع کرو مگر جار حیت نہ کرو اور یہ بات تمام آسمانی کتب میں ہونے کے باوجود اس کی خلا ف ورزی کی جارہی ہے اور اس وقت جو قوم سب سے زیادہ جنگی معاملات میں دوسروں کو بھی دھنسا رہی ہے اوروہ ایک ایسے پیغمبر کی قوم ہے جس کا پہلا درس ہی یہ ہے کہ اگر تمہارے ایک گال پر کوئی طمانچہ مارے تو اپنا دوسرا گال بھی حاضر کر دو۔اسی قوم کے حاکم وقت جارج ب±ش نے تخت شہنشاہی بیٹھتے ہی ارشاد فرمایا تھا ہم نے انسانی حقوق کی پاسداری اور حفا ظت کیلئے ایک نیو ورلڈ آرڈر مرتب کر لیا ہے دنیا کے جس ملک میں انسانی حقوق کے خلاف ورزی ہوگی تو ہم بزور شمشیر ان کی حفاظت کرینگے اس نیو ورلڈ آرڈرکے تحت ہمارے انجینئر ز دن رات یہ شمشیریں (ہتھیار) بنانے میں مصروف عمل ہیں جو ایسے ملک کی پوری اکسیجن کو چوس لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اب ہم روایاتی ہتھیاروں سے ہٹ کر ایسی جدید ترین ٹیکنالوجی بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو لاکھوں انسانوں کو پلک جھپکنے میں ملیامیٹ کر دے گی اور زندہ بچ چانے والوں کو اس طرح معذور کر دے گی کہ وہ زمین پر کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگتے رہیں گے۔حضر ت عیسی کے پیروکاروں نے ان کی اس شریعت حب کی اس طرح خلاف ورزی کی ہے مذہبی تاریخ حیر ت زدہ ہوگئی ہے۔
انسان کے اجزائے ترکیبی،دو اجزا پر مشتمل ہے جسم اور روح مگر انسان نے اپنی ساری توجہ اور جانکاری صرف ایک جزو جسم پر ہی صرف کر دی ہے اس جسم کو صحیح رکھنے کیلئے انسان نے اپنے سائنسی ہتھیارو ں سےاس حصہ کو ایسی ایسی سہولیات اور سنگھار مہیا کر دیئے ہیں کہ ہے کہ انسان کو یہ شاید یقین تھا کہ اس کی ساخت کا یہی ایک حصہ جسم امر ہو جائے گا۔روح کی ترقی سہولت یا علاج معالجے کو بالکل بیکار اور بے معنی سمجھنے لگ گیا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ انسان بے تواز ن ہو کر لنگڑا کر چلنے لگا ہے سائنسدان جو اپنی حیثیت کے صرف ایک حصہ جسم کی آو بھگت میں محنت کرنے لگ گیا تو مرض اور مرگ کو شاید بھول گیا کیونکہ یہی سائنسدان جب بیمار ہوتا ہے تو اپنی بے بسی اور ناتوانی سے اپنے چہرے سے مکھی بھی نہیں اڑا سکتا اور نہ اپنے آپ کو موت سے بچا سکتا ہے اور پھر سزا کو طور پر وبائیں قادر مطلق بھیج دیتا ہے تو سائنسدان اسکے اگے بھی بے بس ہو جاتا ہے۔ابھی کچھ عرصہ ہوا میں اڑتا ہوا ایک بے وزن سا کیڑاکرونا جنگی بنیادوں پر کرہ ارض پر وارد ھوا اور انسانوں کی صفوں میں گھس کر کشتوں کےپشتے لگا دیئے ایٹمی سائنسدان غم و غصے میں اپنے انگلیاں کاٹنے لگے کہ یہ مختصر کیڑا ان کی انگلیوں کی معجزاتی کارکردگی کی زد میں کیوں نہیں آرہا۔دراصل قادر مطلق نے ایسے کئی واقعات انسانوں تک پہنچانے ہیں مگر انسان نے اپنی سمجھ اور کارکردگی اور زعم کی فلڈ لائٹ میں چندھیا گیا ہے کہ ساری کارکردگی بیکار چلی گئی۔ جو آج کل یا اس سے پہلے فلسطین اور کشمیر میں ہو رہا ہے یا ہوتا آرہا ہے اس نے انسان کو حیوان بنا دیا ہے۔
میرے دو اشعار شاید صورتحال کی عکاسی کریں مگر کچھ لوگوں کو ناگوار بھی گذر سکتے ہیں مگر جو حقیقت ہے وہ حقیقت ہے۔
ریوڑ انسان کا بن گیا حیوان
کوئی چیتا کوئی گیڈر کوئی کتا ٹھہرا
انسان انسان کو کھا رہا ہے یہاں
حیواں حیراں ہوتے جاتے ہیں
پاﺅں رکھ کر جبین چاند پر وہ
خود اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے
یہ دونوں جنگیں مذہبی بنیاد پر ہو رہی ہیں ہر ایک کو اپنے ملک میں جینے کا حق ہے اس حق کو چھینے والے اس بے انصافی پر قادر مطلق جو میدان کراہ ارض کا سپریم اور طاقتور ترین کمانڈر ہے ان حقداروں کو ضرور ان کا حق دلائے گا جلد یا بدیر۔ یہ کائناتی میکانزم کوئی کھیل تماشا نہیں یہ پوری ترتیب سے چل رہا ہے نقصان پہچانے والے ناقابل یقین نقصان سے دو چار ہونگے۔ مگر ہم مسلمان بھی اپنے عمال اور افعال پر زرا نظر ضرور ڈال لیں۔ زندگی اور اس سے وابستہ معاملات میں ہم نے اپنا سبق کہاں تک یاد کیا ہوا ہے؟ غبی ہونے کی سزا فیل ہونا ہی ہوتاہے پروردگار کے ہاں پاس ہونے کے لیے سفارش اور رشوت نہیں چلتی۔ وہ کھڑی مزدوری چاہتا ہے اسکی اجرت بھی کھڑی دیتا ہے۔
طبعی موت حتمی، میدان جنگ کی موت کیوں؟
Nov 05, 2023