پاکستان میں ایک بار پھر الیکشن کا نقارہ بج چکا ھے اور الیکشن دنگل کی تیاریاں شروع ہیں۔ پاکستانی الیکشن کے نتائج دیگر دنیا کی الیکشن سینسز سے کافی مختلف ہوتے ہیں، ہمارے ہاں برسر اقتدار اور سیاسی جماعتوں کے عروج و زوال میں پانچ سال کے اندر ھی زمین و آسمان کا فرق پڑ جاتا ھے۔ اسی لیے الیکشن نتائج کو لیکر پوری قوم الیکشن سے قبل کوئی حتمی رزلٹ اخذ نہیں کر پاتی چنانچہ ھم پاکستانی الیکشنوں کو عدم نظریاتی ووٹرز کا طلسماتی الیکشن قرار دے سکتے ہیں۔
اگر ھم نیشنل اسمبلی کے گزشتہ پانچ الیکشنوں کا ہی موازنہ کریں تو 1997ءکے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے پاس قومی اسمبلی میں 137 سیٹیں تھیں اور اگلے ہی انتخابات میں 2002 ءکے دوران مسلم لیگ ن کے پاس قومی اسمبلی میں صرف 18 سیٹیں تھیں جبکہ مسلم لیگ ق کے پاس 118 ، اور پیپلز پارٹی کے پاس 80 سیٹیں تھیں ، پھر 2008 ءکے جنرل الیکشن میں پیپلز پارٹی سب سے زیادہ 122 سیٹیں لیکر حکومت بنا گئی تھی ، 2013 ءکے الیکشن آئے تو قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے پاس 166 ، پیپلز پارٹی کے پاس 42 سیٹیں تھیں اور پی ٹی آئی صرف 35 سیٹوں سے کامیاب ہوئی تھی۔ پھر 2018 ئ کے گزشتہ الیکشنوں میں پی ٹی آئی قومی اسمبلی کی 35 سابقہ سیٹوں سے یکدم 149 سیٹوں پر چلی گئی ، مسلم لیگ ن کے پاس سابقہ 166 سے صرف 82 سیٹیں رہ گئیں اور پی پی پی کے پاس سابقہ 42 سے بڑھ کر 54 سیٹیں بن گئیں۔
مذکورہ اعداد و شمار کو سامنے رکھیں تو شرمناک پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں گزشتہ 26 سالوں میں نہ تو کوئی نظریہ دے سکی ہیں اور نہ ہی کوئی نظریاتی ووٹرز پیدا کر سکی ہیں ، ان سیاسی جماعتوں کے برعکس ملک بھر میں ووٹرز کا جو شعور پروان چڑھا ھے ، وہ قومی اسمبلی میں مسلسل کامیاب ھونے والے الیکٹیبلز ممبران کی دی گئی سوچ ہے۔ گزشتہ پانچ الیکشنوں کے نتائج سے تو یہی ثابت ھو رہا ھے کہ یہ الکٹیبلز اکٹھے ھو کر جس سیاسی جماعت میں چلے جاتے ہیں اسکی سیٹیں بڑھ جاتی ہیں ، اور جس سیاسی جماعت سے نکل جاتے ہیں اس کی سیٹوں کی تعداد کم ھو جاتی ہے۔ یعنی پاکستانی ووٹرز کسی نظریے کو ووٹ نہیں دے رہے بلکہ اس الکٹیبل کو ووٹ دیتے ھیں جس نے ان کے ذاتی کام کروائے ھوں یا جس سے ذاتی کام لئے جانے کی امید ہو ، لہذا جنرل الیکشنوں کا تمام تر دارو مدار کسی ملکی یا قومی مفاد اور نظریے سے ہٹ کر صرف ذاتیات پر فوکس تک محدود ھو کر رہ گیا ہے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی 342 سیٹوں پر مشتمل ھے جن میں 272 الیکشن کے ذریعے عوام سے منتخب کئے جاتے ہیں ، 60 سیٹیں خواتین کی نمائندگی کے لیے ھیں اور دس سیٹیں اقلیتوں کی نمائندگی کے لیے دی جاتی ہیں جنہیں منتخب ممبران اسمبلی منتخب کرتے ھیں۔ 2013ءمیں دس آزاد امیدوار کامیاب ھوئے تھے اور 2018ءمیں 13 آزاد ممبران قومی اسمبلی میں پہنچے تھے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو قومی اسمبلی میں حکومت بنانے کے لیے 172 ممبران اسمبلی کے ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
2018ءکے الیکشن میں ملک بھر کے کل ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 409 تھی جن میں سے صرف پانچ کروڑ 31 لاکھ 22 ہزار 733 نے ووٹ ڈالے تھے۔ ملک بھر کے اندر ان ڈالے گئے ووٹوں سے مجموعی طور پر پی ٹی آئی نے ایک کروڑ 68 لاکھ 51 ہزار 240 ووٹ حاصل کئے تھے ، مسلم لیگ ن کو ایک کروڑ 28 لاکھ 96 ہزار 356 ووٹ ملے تھے ، اور پیپلز پارٹی کے 69 لاکھ ایک ہزار 675 ووٹ تھے ؛ ان میں 60 لاکھ 18 ہزار 291 ووٹ آزاد امیدوار بھی لے گئے تھے ، تحریک لبیک قومی اسمبلی میں کوئی سیٹ تو نہ لے سکی لیکن اس کے مجموعی ووٹ بھی 22 لاکھ 31 ہزار 697 تھے۔ یعنی پی ٹی آئی نے 31 فیصد مسلم لیگ ن نے 24 فیصد اور پیپلز پارٹی نے 13 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔
گزشتہ الیکشنوں میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری الیکشن کمپین نہیں کر سکے تھے انکی جگہ مسلم لیگ ن کی قیادت میاں شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کی الیکشن قیادت بلاول بھٹو کے سپرد تھی ، موجودہ الیکشن میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری خود الیکشن کمپین کر رہے ہیں جس سے ان کے الیکشن رزلٹ پہلے کی بہ نسبت زیادہ بہتر آنے کے واضح چانس ہیں۔ سندھ میں ایم کیو ایم کی سیٹیں بھی سابقہ سات سے بڑھ کر پندرہ تک جا سکتی ہیں۔ مسلم لیگ ن نے جو اپنی 84 سیٹیں گزشتہ الیکشن میں لوز کی تھیں ان میں سے پچاس بھی واپس لے گئے تو موجودہ الیکشن میں قومی اسمبلی کے اندر ان کی سیٹیں 130 سے ہو سکتی ہیں ، پیپلز پارٹی اگر پندرہ سیٹیں بھی مذید لے گئی تو اس کی قومی اسمبلی میں مجموعی سیٹیں 69 کے قریب پہنچ جائیں گی ، متحدہ مجلس عمل کے پاس 16 سیٹیں تھیں جن میں جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی کا اتحاد تھا جو اب 16 سے 20 سیٹوں تک جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن اگر خود 130 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد 10 آزاد ارکان بھی ساتھ ملا لے تو 140 سیٹوں تک رہے گی جس کو حکومت بنانے کے لیے پھر مذید 32 اراکین کی ضرورت ہوگی۔ آصف علی زرداری باقی جماعتوں اور آزاد کو ملا کر بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ھوں گے۔ رہی پی ٹی آئی تو اس کا ذکر اوپر الیکشن پیرائے میں ہو چکا ھے کہ اس ملک میں نظریات سے زیادہ الیکٹیبلز کا ووٹرز ھے اگر پی ٹی آئی کو موجودہ الیکشن میں الیکٹیبلز ہی میسر نہیں ھوں گے تو سیٹیں کہاں سے ملیں گی البتہ پی ٹی آئی الیکشن میں ھوئی تو بڑے شہری علاقوں سے چند سیٹیں ضرور لے جا سکے گی۔ قومی اسمبلی میں حکومت بنانے کے لیے 172 اراکین کی ضرورت ھوتی ھے اور پچھلے پانچ الیکشنوں میں 120 کے قریب الیکٹیبلز ہی مختلف سیاسی جماعتوں سے کامیاب ھو کر اسمبلی میں موجود ھوتے ھیں ، لہٰذا پاکستان میں کسی سیاسی جماعت سے زیادہ الیکٹیبلز کی حکومتیں بنتی ھیں۔ ترقی یافتہ ملکوں نے شعور اور نظریہ دو پارٹی سسٹم سے ڈویلپ کیا ھے پاکستان میں درجنوں سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنا اپنا نظریہ لیکر الیکشن کے میدان میں اتر آتی ھیں۔ تو پھر ووٹرز بھی مذہبی ، سیاسی اور دھڑا بندی میں تقسیم ھوں گے نہ کہ کوئی قومی سوچ اور نظریہ پروان چڑھے گا۔