خود نوشت سوانح عمری لکھنا قطعاً مشکل کام نہیں۔ یہ بہت آسان، سادہ اور کومل سی صنف ہے۔ اِس کو یک نثری ادبی صنف بھی کہا جاتا ہے۔ ہر کوئی اِس پر طبع آزمائی کر سکتا ہے۔ یہ غزل میں پائی جانے والی ناتَمام حسرتوں کے ماتم سے مبرا اور ناول یا افسانے کی فرضی کہانیوں اور تخلیق کردہ غیر حقیقی کرداروں کے جھنجھٹ سے بے نیاز ہوتی ہے۔ اتنی آسانیوں اور رعائیتوں کے باوجود بہت کم لوگ اِس دشت کی سیاحی کرتے ہیں۔
شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ کتاب کے خریدار اور قارئین ا س کے پاس ہوتے ہیں جو صاحبِ اقتدار و اختیار ہو، جادوئی چھڑی کا مالک ہو اور لکھنے کا ہنر یا لکھوانے کی قدرت رکھتا ہو۔ یوں کہہ لیجیے کہ خود نوشت لکھنا ایک مشکل مشق نہ سہی مگر کتاب کی فروخت اور قارئین کو مائل بہ مطالعہ کرنا تو آسان کام نہیں۔ ایک بیوروکریٹ کہتے ہیں کہ کتاب بیچنا کوئی مسئلہ نہیں۔ ان کے ایک ساتھی کمشنر اِنکم ٹیکس تھے۔ کراچی میں ان صاحب کی ایک کتاب مشہور پبلشر نے چھاپی۔ ایک دن پبلشرز کو فون آیا، "میں … فلاں میمن بول رہا ہوں۔ کمشنر صاحب والی کتاب کی دو بوریاں دکان کے پتے پر پارسل کروا دیں"۔
سوانح حیات لکھنے والا زندگی میں پیش آنے والے حالات و واقعات کو مختلف کہانیوں کے انداز میں لکھتا ہے۔ باقی کرداروں کو اپنی منشاءسے مقام و مرتبہ عطا کرتا ہے۔ ہر رقم کردہ کہانی کا ہیرو وہ خود ہوتا ہے۔ اس سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوتی کیونکہ غلطیوں کے ارتکاب کی ذمہ داری وہ دوسرے افراد کو سونپ دیتا ہے اور خود تنِ تنہا انہیں اصلاحِ احوال کی صلاح دے کر اپنی تر دامنی نچوڑتا رہتا ہے۔ اس کے مشوروں پر عمل درآمد ہونے اور اس کے حوصلہ افزا نتائج کا کریڈٹ خود لیتا ہے، بصورتِ دیگر وہ دوسروں کو مذکورہ غلطیوں اور کوتاہیوں کا قصور وار ٹھہرا کر اپنی ذات کو بہت عمدگی سے بری الذمہ قرار دے دیتا ہے۔ تاہم، ممتاز مفتی نے "علی پور کا ایلی" میں اپنے اور اپنے خاندان کے وہ راز بھی افشاءکر دئیے جو شاید کوئی اور لکھاری انہیں طشت ازبام کرنے کا سوچ بھی نہ سکتا.اپنے وقت کے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے فرینڈز ناٹ ماسٹر، جنرل پرویز مشرف نے "اِن دی لائن آف فائر" اور جنرل مرزا اسلم بیگ نے"کمپلشن آف پاور" کے نام سے اپنی سوانح عمریاں قلمبند کروائیں۔
افواج کے سربراہ چونکہ ہاتھ میں چھڑی پکڑنے کی روایت رکھتے ہیں، اِس لئے تینوں نے سوانح عمریاں کہنہ مشق لکھاریوں سے لکھوائیں۔ جنرل ایوب خان کی کتاب الطاف گوہر، جنرل پرویز مشرف کی کتاب الطاف گوہر کے فرزندِ ارجمند ہمایوں گوہر جبکہ جنرل مرزا اسلم بیگ کی کتاب کرنل اشفاق حسین نے تحریر کی۔ یہ تینوں کتابیں بہت زیادہ پڑھی اور پسند کی گئیں اور بعض ناقدین کی طرف سے تنقید کا نشانہ بھی بنیں….۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی اِس صنف پر طبع آزمائی کرنی چاہئیے۔ اِس سے مورخین کو عہدِ حاضر کی تاریخ لکھتے وقت بہت آسانیاں پیدا ہونگی۔
اردو ادب سے وابستہ مشہورِ زمانہ ہستیوں میں ممتاز مفتی کی دو کتابوں "علی پور کا ایلی" اور "الکھ نگری" نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ قدرت اللہ شہاب نے "شہاب نامہ" لکھ کر گویا تہلکہ مچا دیا۔ اِس کتاب نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔
تاریخ پاکستان کے بہت اہم اور نازک واقعات کو بہت عمدہ پیرائے میں بیان کرکے اس دور کے حکمرانوں کی ذہنی استعدادِ کار پر بہت سے سوالیہ نشانات لگائے۔
بانو قدسیہ نے "ابریشم" ، قتیل شفائی نے "گھنگھرو ٹوٹ گئے" اور کشور ناہید نے "شناسائیاں، رسوائیاں" کے عنوان سے اپنی اپنی آپ بیتیاں قلمبند کیں۔ طنز و مزاح میں شوکت تھانوی کی "مابدولت"، ضمیر جعفری کی "ضمیر حاضر ضمیر غائب"، صدیق سالک کی "ہمہ یاراں دوزخ"، مشتاق احمد یوسفی کی "زر گزشت" اور کرنل محمد خان کی "بجنگ آمد" مشہور ہوئیں۔
عدلیہ سے تعلق رکھنے والوں میں جسٹس جاوید اقبال نے "اپنا گریبان چاک", سابق چیف جسٹس آف پاکستان نسیم حسن شاہ نے "کچھ یادیں اور تاثرات" اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان ارشاد حسن خان نے" ارشاد نامہ" کے نام سے اپنی اپنی سوانح عمریاں مرتب کیں۔ سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بھی اپنی سوانح عمری لکھ کر درپیش تمام حقیقتوں کو آشکار کرکے قوم پر احسان کرنا چائیے تھا!!
سیاست دان بھی اِس سادہ اور آسان صنف میں بھلا کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ سابق امیر جماعت اسلامی، میاں محمد طفیل نے "طفیل نامہ"، عبدالستار خان نیازی نے "میں"، عابدہ حسین نے "پاور آف فیلئر"، نوابزادہ نصراللہ خان نے "کیا قافلہ جاتا ہے" ، بینظیر بھٹو نے" دخترِ مشرق" جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے "اِف آئی ایم اسیسینیٹڈ" کے نام سے اپنی آپ بیتی رقم کی۔ یوسف رضا گیلانی نے "چاہ یوسف سے صدا" جاوید ہاشمی نے "میں باغی ہوں" جبکہ گوہر ایوب خان نے "ایوان اقتدار کے مشاہدات" کے نام سے اپنی آپ بیتی لکھی۔ اختلاف برطرف، آصف علی زرداری، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان ملک کے بہت تجربہ کار، پختہ کار اور آزمودہ کار سیاست دان ہیں۔ تنگء وقت کے باعث اگر یہ تینوں اپنی اپنی سوانح عمریاں کسی مستند لکھاریوں سے لکھوا سکیں تو یہ کتابیں پاکستان کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت اختیار کر سکتی ہیں۔
چند ماہ پہلے مجھے ایک انوکھی خود نوشت پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ کسی انسان کی بجائے پاکستان کے سب سے بڑے دریا کی آپ بیتی ہے۔ دریائے سندھ اپنے ارتقاء سے لے کر اب تک کے تند و تیز اور تلخ و شیریں حالات و واقعات کو اچھوتے انداز میں بیان کرتا ہے۔ اپنے آس پاس آباد مختلف قبیلوں، تہذیبوں اور ثقافتوں کا دلچسپ پیرائے میں ذکر کرتا ہے۔ کتاب میں علمِ جغرافیہ کے علاوہ تاریخ، زراعت، دفاع اور حالاتِ حاضرہ کے علوم کو بھی خوبصورتی سے سمویا گیا ہے۔ "سندھو سلطنت" کے نام سے لکھی جانے والی کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب مصنف شہزاد احمد حمید کی برسوں کی عرق ریزی اور دشت نوردی کے بعد وجود میں آئی ہوگی۔ انڈیا کے خفیہ ادارے 'را' کے سابق سربراہ اے ایس دلت اور پاکستان کی خفیہ سروس کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے مشترکہ طور پر ایک کتاب "سپائی کرونیکلز" لکھی تھی۔
یہ خود نوشت تو نہیں مگر اِس طرح کے جائینٹ ونچر میں اگر شوبز کی دنیا کے سابقہ درخشندہ ستارے، سنتوش، صبیحہ، علی زیب، شبنم روبن اور دلیپ سائرہ اپنی زندگی کے مختلف پہلوو¿ں کو کتابی شکل میں اجاگر کرتے تو ان کی سوانح عمریاں ہاٹ کیک کی طرح ہاتھوں ہاتھ بکتیں۔ اداکارہ میرا جی اب بھی یہ چانس avail کرکے میلہ لوٹ سکتی ہیں۔
اگر ٹک ٹاکرز بھی شوبز کا حصہ تصور ہوں اور حریم شاہ اپنی زندگی پر راست گوئی سے کتاب لکھیں تو ان کی سوانح حیات بِکری کے تمام اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالے گی۔
٭....٭....٭