غزہ میں صہیونی فوج کی بمباری سے بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہو رہے ہیں۔ طبی پیچیدگیوں کے باعث بہت سے زخمیوں کے اعضا کاٹنے پڑ رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں اعضا سے محروم ہونے والے بچوں کی فریادوں نے دل دہلا کر رکھ دئیے ہیں۔ ایک ہسپتال میں فلسطینی لڑکی لیان الباز چیخ کر کہتی ہے ’’مجھے مصنوعی اعضاء نہیں چاہیے، میرے لیے میری اپنی ٹانگ بڑی کردو‘‘ ۔ہر بار جب شدید درد اسے ہسپتال میں بیدار کرتا ہے تو وہ اپنی ٹانگیں کٹنے پر دہشت کے عالم میں پڑی رہتی ہے اور کہتی ہے مجھے مصنوعی ٹانگیں نہیں چاہیں بلکہ میری اپنی ٹانگوں کو بڑا کردو۔13 سالہ لڑکی لیان الباز سے ایجنسی فرانس پریس کی ٹیم جنوبی غزہ کی پٹی میں خان یونس میں واقع ناصر ہسپتال کے بچوں کے شعبے میں ملی۔ لیان نے اپنے لیے مصنوعی اعضا کا تصور کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے چیخ کر کہا مجھے مصنوعی اعضاء نہیں چاہیے۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ میری ٹانگیں دوبارہ لگائیں ۔ ڈاکٹر انہیں کٹی ہوئی ٹانگوں کو دوبارہ لگا سکتے ہیں۔لیان نے اس دردناک واقعہ کے متعلق بتایا اور کہا جمعرات کو میں اپنی بہن کے گھر گئی تھی تاکہ اس کے بچے کی پیدائش کے بعد میں اس کی دیکھ بھال کر سکوں۔ اچانک میں بیدار ہوئی اور خود کو ہسپتال میں پایا۔ اب جیسے ہی درد کش ادویات کااثر ختم ہوتا ہے تو درد شروع ہوجاتا ہے اور میں بیدار ہوجاتی ہوں۔ بیدار ہوکر اپنی پٹی بند ٹانگوں کو دیکھتی رہتی ہوں۔لیان کی والدہ لامیہ الباز بتاتی ہیں کہ لیان گزشتہ ہفتے خان یونس کے القارا محلے میں ہونے والے بم دھماکے میں زخمی ہوئی تھی۔یاد رہے فلسطینی وزارت صحت نے ہفتے کے روز بتایا ہے کہ 7 اکتوبر کو جنگ کے آغاز کے بعد سے 29 دنوں میں غزہ کی پٹی میں ہلاکتوں کی تعداد 9,488 ہو گئی ہے۔ شہدا میں 3900 بچے اور 2509 خواتین بھی شامل ہیں۔لیان کا چہرہ اور بازو بھی زخموں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ اس نے مزید بتایا میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ نرس بننے کا خواب دیکھا ہے۔ جب میرے دوست چلیں گے اور میں چل نہیں سکتی تو میں سکول واپس کیسے جاؤں گا؟تیرہ سال کی لیان پھر بولی مصنوعی اعضا کو توڑا جا رہا ہے۔ مجھے ایسی ٹانگیں نہیں چاہییں جو ختم ہو جائیں۔ میں چاہتی ہوں کہ میری ٹانگیں ہی ٹھیک ہو جائیں۔لیان کی ماں یہ کہہ کر اسے یقین دلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ " میں آپ کے ساتھ ہوں گی۔ آپ ٹھیک ہیں، اللہ کا شکر ہے، آپ پھر بہترین حالت میں آ جاؤ گی۔ مستقبل ابھی آپ کے سامنے ہے‘‘ ۔ 47 سالہ والدہ کا کہنا ہے کہ بم دھماکے میں ان کی دو بیٹیاں اخلاص اور خاتم اور دو نواسے بھی جاں بحق ہوگئے ہیں۔ماں نے مزید دردناک صورت حال کی وضاحت کی اور کہا مجھے مردہ خانے میں اپنی دو بیٹیوں کی لاشوں کی شناخت کرنے کا کہا گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ دونوں بیٹیوں کے صرف جسم کے اعضاء موجود ہیں۔ میں نے خاتم کو اس کی بالیوں سے اور اخلاص کو اس کی انگلیوں کی شکل سے پہچانا ہے۔لیان کی طرح اسی طرح 14 سال کی لمی الآغا اور اس کی پندرہ سالہ بہن سارہ بھی برنز وارڈ میں زیر علاج ہیں ۔ 12 اکتوبر کو ہونے والے حملے میں وہ دونوں زخمی ہوگئی تھیں۔ دونوں بستروں کے درمیان ان کی ماں اپنے آنسو روکے بیٹھی تھیں۔اس بم دھماکے میں سارہ کی جڑواں بہن سما اور ان کا چھوٹا بھائی یحییٰ شہید ہو گیا ہے۔ لمّی کے بال جزوی طور پر منڈوائے گئے ہیں۔ اس کے ماتھے پر ٹانکے اور جلنے کے نشانات بھی ہیں۔ لمی نے کہا وہ مجھے یہاں لے کر آئے۔ میں نے ان سے بیٹھنے میں مدد کرنے کو کہااور جب انہوں نے ایسا کیا تو مجھے ادراک ہوا کہ میری ٹانگ کاٹ دی گئی ہے۔ میں نے اپنے سینے میں بہت درد اور جکڑن محسوس کی لیکن میں نے پھر بھی خدا کا شکر ادا کیا کہ میں ابھی تک زندہ ہوں۔ لمی نے کہا میں نے بچپن سے ہی ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھا ہے۔ میں مصنوعی اعضاء کو فٹ کروں گی اور اپنی پڑھائی اور اپنے شوق کو جاری رکھوں گی۔ میں اپنے اور اپنے خاندان کے لیے مضبوط بن کر رہوں گی۔ناصر ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ناھض ابو طعیمہ بتاتے ہیں کہ زخمیوں کی بڑی تعداد کے پیش نظر اور دستیاب صلاحیتوں کی کمی کی وجہ سے ڈاکٹرز کے پاس پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے اعضا کاٹنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بعض اوقات فیصلہ بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہم زخمی شخص کی جان بچانے یا زخمی عضو کو بچانے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔14 سالہ احمد ابو شاہمہ فٹ بال کی قمیض اور شارٹس پہنے اپنے کزنز کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ وہ بیساکھیوں پر ٹیک لگائے اپنے گھر کے صحن میں ہے۔ اس کا گھر مشرقی خان یونس میں ملبے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں وہ فٹ بال کی مشق کرتا تھا۔ اس کی دائیں ٹانگ اس وقت کاٹ دی گئی جب وہ ایک بمباری کی زد میں آ گیا۔ بمباری نے اس عمارت کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا جس میں اس کا خاندان رہتا تھا۔ اس کے چھ کزن اور اس کے چچی اس بمباری میں جاں بحق ہوگئے ہیں۔احمد نے بتایا جب میں بیدار ہوا تو میں نے اپنے بھائی سے پوچھا کہ میری ٹانگ کہاں ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ موجود ہے لیکن میں بے ہوشی کی وجہ سے اسے محسوس نہیں کر رہا۔ وہ ٹانگ کا احساس نہ کرنے کا کہ کر صبح تک مجھ پر ہنستا رہا۔ پھر صبح کو میرے کزن نے مجھے بتایا کہ میری ٹانگ کاٹ دی گئی ہے۔احمد نے بتایا میں روتا تھا۔ پھر رونا بند کر دیتا اور الحمد للہ کہتا تھا۔ اس کے بعد پھر رونا شروع کر دیتا تھا۔ پہلی بات جو میرے ذہن میں آئی وہ یہ تھی کہ اب میں چل پھر سکوں گا نہ ہی فٹ بال کھیل سکوں گا۔ احمد ہسپانوی کلب بارسلونا کے مداح ہیں جب کہ ان کے کزن بھی اس کے مرکزی حریف ہسپانوی کلب ریال میڈرڈ کی حمایت کرتے ہیں۔اس کے کزن فرید نے بتایا کہ اگر دن اور وقت واپس آ جائے اور احمد درست ہوجائے تو میں اس کی ٹیم کو سپورٹ کروں گا اور ریال میڈرڈ کو چھوڑ دوں گا۔