ظالمو ٹرمپ آ رہا ہے، حقیقی آزادی لا رہا ہے۔ 

پی ٹی آئی کے ایک رہنما لطیف کھوسہ ٹی وی پر فرما رہے تھے کہ ان کے سو فیصد یقین کے مطابق ٹرمپ امریکہ کا صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد عمران خاں کو رہائی دلوائیں گے۔ 
ایک کھوسہ صاحب کیا، پی ٹی آئی کا ہر رہنما اور ورکر ان دنوں سر سے پائوں تک ایک پوسٹر بنا ہوا ہے جس پر لکھا ہے ظالمو ٹرمپ آ رہا ہے، ساتھ میں عمران خاں اور حقیقی آزادی کو بھی لا رہا ہے۔ 
یہ بات ریاست پاکستان اور اس کے فسطائی حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ جو آزادی وہ نہ دے سکے اب امریکہ سے لینا پڑ رہی ہے۔ 
ابتدا میں جب مجاہدین آزادی نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ ہم کوئی غلام تو نہیں اور یہ کہ امریکہ سے آزادی چاہیے تو غلط فہمی بلکہ غلط العام فہمی کے تحت کچھ لوگوں نے یہ سمجھا کہ پی ٹی آئی والے امریکی غلامی سے آزادی چاہتے ہیں۔ امریکہ نے ہمیں غلام بنا رکھا ہے، خاں اس غلامی سے نجات دلائے گا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ غلط العام فہمی دور ہوتی گئی اور اب چشم بدور، یہ غلط فہمی مکمل طور پر دور ہو چکی ہے۔ امریکہ سے آزادی کا مطلب دراصل یہ تھا کہ آزادی امریکہ سے ملے گی، آزادی امریکہ لے کر دے گا۔ امریکی غلامی اور امریکی غلاموں کے الفاظ دراصل ٹائپ کی غلطی تھے۔ 
_____
ٹرمپ کی ممکنہ جیت کے حوالے سے منظر کچھ یوں قلم بند یا فلم بند ہو سکتا ہے کہ الیکشن کا نتیجہ آ چکا ہے۔ ٹرمپ جیت گئے ہیں۔ جیت کے اگلے ہی روز وہ وائٹ ہائوس میں داخل ہو کر اپنی ٹیبل لگاتے ہیں۔ قانونی طور پر بائیڈن ابھی جنوری تک ایوان صدر ہی میں رہیں گے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ تمام افسران کا رخ بائیڈن کے دفتر کی طرف نہیں ہے بلکہ ہر کوئی فائل اٹھا کر اس کونے میں آ رہا ہے جہاں ٹرمپ نے اپنی میز لگا رکھی ہے۔ 
سب سے پہلے ایک افسر آتا ہے اور کہتا ہے، عزّت مآب ، یہ غزہ کی فائل ہے۔ ٹرمپ فائل اٹھا کر اس کے منہ پر پھینک دیتے ہیں اور کہتے ہیں دفع ہو جائو، اصل فائل لے کر آئو۔ افسر جاتا ہے اور دوسری فائل لے کر آتا ہے کہ حضور یہ رہی اصل والی فائل، یوکرائن جنگ والی۔ ٹرمپ یہ فائل بھی اٹھا کر  اس کے منہ پر مارتا ہے اور کہتا ہے دفع ہو جائو، اصل فائل لے کر آئو۔ افسر پھر دفع ہو جاتا ہے اور تیسری بار لوٹ کر آتا ہے حضور شاید اس فائل کی بات کر رہے تھے، امیگرنٹس والی فائل۔ ٹرمپ فائٹل اٹھا کر اس کے سر پر مارتا ہے اور تیسری بار دفع ہونے کا حکم دیتا ہے۔ اور دھاڑ کر کہتا ہے تمہیں سمجھ میں نہیں آ رہی، اصل فائل لائو، میرے یار عمران کی فائل، حقیقی آزادی کی فائل۔ جلدی کرو، دیر اب ایک منٹ کی بھی برداشت نہیں۔ 
_____
اس منظر نامے کا اگلا سین مشاہد حسین سیّد نے لکھا ہے اور اس کا حاشیہ اعتزاز احسن نے تحریر کیا ہے۔ دونوں حضرات کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ مشاہد کی شہرت اس وقت چار پانچ بلکہ چھ دانگ عالم کو عبور کر گئی تھی جب اس وقت کے صدر ضیاء الحق مرحوم نے انہیں ایٹمی پروگرام کی خبریں بھارت کو لیک کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور اعتزاز احسن تب مشہور ہوئے تھے جب انہوں نے کچھ فہرست ہائے ناپسندیدگان بھارت کے دورہ پر جا کر بدست خود ’’ڈیلیور‘‘ کی تھیں۔ تب سے انہیں مخالف عناصر ’’ڈلیوری بوائے‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ 
یعنی کم از کم ایک پڑوسی ملک کے حوالے سے یہ ہر دو نابغے ایک پیج پر رہے ہیں اور آج کل دونوں حقیقی آزادی والی کتاب میں بھی ایک ہی پیج پر آ گئے ہیں۔ 
نابغہ نمبر ایک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ 8 نومبر کے بعد کسی بھی فوری تاریخ کو ایک فون اسلام آباد، معاف کیجئے گا، راولپنڈی میں کریں گے۔ جس کی تعمیل ہو گی۔ نابغہ نمبر دو کا حاشیہ یہ ہے کہ فون وصول ہوتے ہی شہباز اسلام آباد سے راولپنڈی پہنچیں گے جہاں حافظ صاحب ان کے منتظر ہوں گے، پھر دونوں ہیلی کاپٹر کے ذریعے اڈیالہ جائیں گے۔ اور ’’حقیقی آزادی‘‘ کو لے کر پھر سے اسلام آباد آئیں گے۔ یوں انقلاب آزادی اپنی منزل پر پہنچ کر جھنڈے گاڑ دے گا۔ 
حقیقی آزادی کے کیمپ کے مطابق، یہ سارا منظر -15 نومبر تک پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد چوکوں پر کھمبے نصب کئے جائیں گے یا گلوٹین، تاحال اس کا فیصلہ نہیں ہوا۔ 
_____
پاکستان میں ہر شخص اس منظرنامے سے باخبر ہے البتہ امریکہ والوں تک اس منظر نامے کی کوئی اطلاع نہیں پہنچی۔ خود ٹرمپ بھی بیخبر ہیں۔ 
امریکی حالات، انتخابی نتائج اور پاکستان کے بارے میں بہت سے عالمی مبصّروں کی ایک رپورٹ بی بی سی نے کمپائل کر کے اپنے ویب پیج پر چھاپی ہے۔ خاصی طویل ہے۔ پاکستان سے متعلقہ حصوں کا خلاصہ ، بلکہ خلاصے کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ:۔ 
ٹرمپ جیت بھی جائیں تو بھی یہ مشکل ہے کہ وہ عمران کی حمایت کریں، عمران کیلئے کسی معنی خیز حمایت کی توقع نہیں، امریکہ کی پاکستان سے متعلق پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی متوقع نہیں، ٹرمپ پالیسی پاکستان پر بائیڈن جیسی ہی ہو گی۔ چین اور ایران کے حوالے سے پاکستان پالیسی میں سختی آ سکتی ہے۔ 
_____
بہرحال ٹرمپ اور کملاہیرس میں مقابلہ سخت ہے۔ ایک ڈیڑھ ماہ پہلے تک کملا کو ٹرمپ پر 3 فیصد یا اڑھائی فیصد کی برتری تھی، اب مقابلہ برابر کا ہے۔ چند دن پہلے ٹرمپ ایک فیصد برتری پر آ گئے تھے، اب پھر برابری ہو گئی۔ 
ٹرمپ کو شدّت پسند پروٹنسٹنٹ مذہبی دھڑے کی ’’شدید‘‘ حمایت حاصل ہے جن کا عقیدہ ہے کہ جب تک سولومن ٹمپل (ہیکل سلیمانی) پھر سے تعمیر نہیں ہو جاتا، حضرت مسیح? کی آمد ثانی ممکن نہیں چنانچہ وہ غزہ والوں کی صفائی.اور مسجد اقصیٰ کی شہادت کے عزم میں صہیونیوں کے ساتھ ہیں۔ امریکہ کے صہیونی ووٹروں کا بس نہیں چلتا ورنہ ان میں سے ہر ایک، ٹرمپ کو دو دو ووٹ کاسٹ کرتا۔ 
_____
2019ء میں بہرحال عمران خاں ٹرمپ کیلئے اہم تھے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت بھارت کے وزیر اعظم مودی کو کھٹک رہی تھی، اسے دور کرنے کیلئے پاکستانی وزیر اعظم کی ’’ہاں‘‘ چاہیے تھی اور ٹرمپ مودی سے وعدہ کر چکے تھے کہ وہ یہ ’’ہاں‘‘ حاصل کر کے مودی کو دلوائیں گے چنانچہ عمران کی آمد پر ٹرمپ نے خاص آئوبھگت کی۔ ’’ہاں‘‘ کا تحفہ دینے کے بعد عمران نے یہ محسوس کیا کہ گویا انہوں نے ورلڈ کپ جیت لیا۔ دراصل یہ احساسات اس وقت نریندر مودی کے تھے لیکن دل سے دل کو راہ ہوتی ہے اس لئے عمران نے محسوس کیا کہ ورلڈ کپ مودی نے نہیں، میں نے جیتا ہے۔ 
اب ٹرمپ کو مزید ’’ہاں‘‘ درکار نہیں ہے۔ افغان صورت حال بھی وہ نہ رہی۔ ہو سکتا ہے ٹرمپ کو آج عمران کا نام اور چہرہ بھی یاد نہ ہو۔ ایسا ہے تو معاملہ پریشان کن ہے۔ مشاہد حسین اور اعتزاز احسن دونوں نابغوں سے گزارش ہے کہ جملہ مصروفیات ترک کریں، فوراً امریکہ پہنچیں۔ اگر ٹرمپ جیت جاتے ہیں تو مل کر ان کی کھوئی ہوئی یادداشت بحال کروائیں، انہیں بتائیں کہ عمران خاں کے نام والی ایک ہستی بھی ’’ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں‘‘ کی تصویر بنی بیٹھی ہے۔

ای پیپر دی نیشن