ہاتھی یا گدھا،فاتح کون؟

آج آپ جس وقت ’’نوائے وقت‘‘ میں یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے، اس کے ٹھیک بارہ گھنٹے کے بعد امریکہ کے صدارتی انتخابات کی پولنگ شروع ہو جائے گی۔ حسب سابق اس مرتبہ بھی مقابلہ سخت ہے۔ کسی کے بارے میں حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ کون امریکہ کا صدر ہوگا، تاہم آج فیصلہ ضرور ہو جائے گا کہ امریکی سابق صدر ٹرمپ کو منتخب کرتے ہیں یا پھر کملا ہیرس کو جو آج بھی امریکہ کی نائب صدر ہیں۔ اب تک کے سروے میں کبھی ٹرمپ آگے ہوتے تھے اور کبھی کملا ہیرس ٹرمپ سے برتری لیتے ہوئے نظر آتی تھی لیکن آخری سروے میں ٹرمپ کا تھوڑا سا پلڑا کملا ہیرس کے مقابلے بھاری بتایاجا رہا ہے۔ اگر ٹرمپ اور جوبائیڈن کا مقابلہ ہوتا تو یقینی طور پر ٹرمپ جیت جاتے اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑی مشکلوں سے ڈیموکریٹس نے جوبائیڈن کو صدارتی انتخاب سے دستربردار کروایا اور ان کی جگہ کملا ہیرس کو امیدوار کے طور پر سامنے لایا گیا۔ امریکہ کی پالیسیاں ہر ملک کی طرح اپنے مفادات میں ہوتی ہیں۔ وہاں پر جو بھی صدر بن جائے عالمی سطح پر پالیسیوں میں بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا تاہم فرق پڑتاضرور ہے۔ہم یہاں بات کریں گے کہ اب سے تھوڑی دیر بعد پاکستانی جو امریکہ کی شہریت بھی رکھتے ہیں وہ بھی صدارتی الیکشن میں اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے۔ تو وہ ووٹ کس کو دیں، ریپبلکن کو یا پھر جوبائیڈن کی ڈیموکریٹس کو۔پاکستان کے حالات میں امریکہ کا عمل دخل رہا ہے ،اسی حوالے سے پاکستان کی سیاسی پارٹیاں کچھ جوبائیڈن کی، کچھ ٹرمپ کی کامیابی کے لیے کوشاں ہیں اور کچھ کملا ہیرس کو امریکی صدر دیکھنا چاہتی ہیں۔ لیکن یہاں پر ہم اپنے پاکستانیوں کو مشورہ دیں گے کہ امریکہ کے حالات اور پاکستان کے حالات کو یہ لوگ اچھی طرح سے جانتے اور سمجھتے ہیں پاکستان کے لیے کون سا صدر مناسب ہو سکتا ہے، کون سا صدر منتخب ہو جائے تو پاکستان میں بہتری آ سکتی ہے۔ اسرائیل کے حوالے سے کس شخص کی پالیسیاں بہتر ہو سکتی ہیں ،کشمیر کی آزادی کے لیے ٹرمپ اور کملاہیرس میں سے کون بہتر کردار ادا کر سکتا ہے، اس سب کا جائزہ لے کر پاکستانیوں کو اپنا ووٹ کاسٹ کرنا چاہیے۔ میرا سب سے زیادہ اپنے وطنوں پر زور یہ ہے کہ ووٹ آپ جس کو مرضی دیں لیکن ہر صورت آپ اپنا ووٹ کاسٹ ضرور کریں۔
ادھر وزیراعظم شہبازشریف سعودی عرب کے دورے کے بعد قطر گئے اور قطر سے واپس پہنچ چکے ہیں ۔ شہبازشریف کا سعودی عرب کا دورہ حکومتی دعوئوں کے مطابق بڑا کامیاب رہا ۔قطر میں بھی وزیراعظم شہبازشریف اور ان کے وفد کا نہ صرف والہانہ استقبال کیا گیا بلکہ قطری سرمایہ کاروں کی طرف سے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کے وعدے بھی کیے گئے ۔ سعودی عرب نے پاکستان میں کئی شعبوں میں سرمایہ کاری کے وعدوں کا اعیادہ کیا ،کئی معاہدے پر دستخط کیے ،کئی یادداشتوں پر بھی دونوں ممالک کے وفود نے دستخط کیے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کے بہترین اور بہت سے مواقعے موجو د ہیں ۔ سعودی عرب ، قطر ،متحدہ عرب امارات،کویت، چین سارے ممالک مل کر پاکستان میں تینتیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیائی ریاستوں کی طرف سے بھی بشمول روس پاکستان میں سرمایہ کاری کے معاہدے ہو چکے ہیں۔ یہاں پر سوال یہ ہے کہ پاکستان میں اتنی بڑی سرمایہ کاری آ رہی ہے تو کیا سرمایہ کاری کے لیے پاکستان میں حالات سازگار ہیں، یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ ہم اس بحث میں پڑے بغیر حکومت سے یہ د رخواست کریں گے کہ پاکستان میں اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے حالات کو سازگار بنایا جائے۔ سب سے پہلے تو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ یہ بال حکومت کی کورٹ میں ہے کہ وہ سیاسی کشیدگی کو کس طرح کم اور ختم کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ سرمایہ کاری کے لیے اولین ضرورت ملک کا امن و امان ہے ۔ اس طرف بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ کل ہی کی بات ہے کہ مستونگ میں سکول کے قریب ریموٹ بم کے دھماکے میں پانچ طلبا اور پولیس اہلکار سمیت نو افراد جاں بحق ہو گئے۔ اور بہت بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے یہ تعدا د پچاس بتائی جا رہی ہے۔ اگر یہاں امن و امان کی صورت حال ایسی ہو گی تو سرمایہ کار کے لیے یہ کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔جیسے بھی ممکن ہو پاکستان میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانا ہوگا اس کے ساتھ ساتھ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے انرجی کا وافر مقدار میں ہونا بھی لازم ہے اور اس کا سستا ہونا بھی ضروری ہے۔پاکستان میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے ۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کا رجحان نظر آ رہا ہے تو یہ چیزیں سرمایہ کاری کے لیے سپوٹیو نہیں ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو بلاتاخیر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف بیرونی سرمایہ کار بلکہ اندرونی سرمایہ کار کا اعتماد بھی بحال رہے۔ 26ویں آئینی ترمیم نافذ العمل ہو چکی ہے۔ اس کے مثبت اور منفی دونوں قسم کے اثرات بھی نظر آ رہے ہیں۔ یہ ترمیم اگر متفقہ طور پر ہوتی تو بہت بہتر تھا۔ اسی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد سترہ سے پچیس کی جا رہی ہے۔ ابتدائی طور پر دو روز پہلے سینیٹ میں بل منظور کیا گیا ہے ۔اس کی اپوزیشن کی طرف سے مخالفت کی گئی ہے۔ اپوزیشن میں جے یوآئی ایف اور تحریک انصاف شامل ہیں۔
سینیٹ کمیٹی جس کی طرف سے ججوں کی تعداد پچیس کرنے کا بل منظور کیا گیا اس کے چیئرمین میرے دوست فاروق ایچ نائیک ہیں۔ وہ ججوں کی تعداد بڑھانے کے سب سے بڑے حامی رہے ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کے کامران مرتضیٰ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ججوں کی تعداد پوری ہے ،مقدمات جان بوجھ کر لٹکائے گئے ہیں جب کہ تحریک انصاف کے لیڈر سینیٹر حامد خان کی طرف سے کہا گیا کہ ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھائی جائے۔سپریم کورٹ ،ہائی کورٹ اور لوئر کورٹس میں زیر التوا مقدمات کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ جس کی وجہ سے انصاف میں تاخیر ہوتی ہے، کئی مقدمات تو نسل در نسل چلتے ہیں۔ بیک لاء کے خاتمے کے لیے اگر ججوں کی تعداد میں اضافے کے سوا اپوزیشن کے پاس کوئی تجویز ہے تو وہ سامنے ضرور لانی چاہیے۔جہاں تک کامران مرتضیٰ کا یہ کہنا ہے کہ جان بوجھ کر یہ مقدمات لٹکائے گئے ہیں۔اگر ایسا کیا گیا ہے تو یہ ہماری عدلیہ کی بدقسمتی ہے لیکن ایسا نظر نہیں آتا۔ بہرحال جیسے بھی ہے، بلاتاخیر انصاف ہو جائے تو بہت بہتر ہے کیونکہ کہایہی جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر ناانصافی کے مترادف ہوتی ہے۔
میں آخرمیں اپنے قارئین ’’نوائے وقت‘‘ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ امریکی اپنے صدر کا انتخاب یہ دیکھ کر کریں گے کہ نیا منتخب ہونے والا صدر امریکہ کے مفادات کا تحفظ کس طرح کرتا ہے۔ ان کا ووٹر یہ نہیں سوچے گا کہ آزادیٔ کشمیر و فلسطین یا دنیا بھر مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا ازالہ کونسا صدر کرے گا؟میں نے امریکن پالیٹکس کو بڑے قریب دیکھا ہے ان کی مینجمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ برسوں کام کیا ہے اور میرا اپنا یہ تجزیہ ہے کہ امریکن کی اکثریت کبھی امریکی مفادات کے برخلاف فیصلہ نہیں کرے گی۔اور گدھا جیتے گا یا ہاتھی، اس میں صرف چند گھنٹے باقی رہ گئے ہیں۔(یاد رہے گدھا ڈیموکریٹس پارٹی کا انتخابی نشان ہے اور ہاتھی ریپبلکن پارٹی کا انتخابی نشان ہے)

ای پیپر دی نیشن