نومبر کا منگل

آج نومبر کے پہلے سوموار کا اگلا روز ہے سیدھے لفظوں میں نومبر کا پہلا منگل، لیکن سیدھے لفظوں میں اس لیے بات نہیں کر رہے کہ یہاں بات ہو رہی ہے امریکا کی جہاں ہر چار سال بعد آنے والے نومبر کے پہلے سوموار کے اگلے روز ملک میں الیکشن ہوتے ہیں۔ اگر ایسی کوئی بات ہمارے آئین میں لکھی ہوتی تو ہم آئین لکھنے والے اپنے بزرگوں کی نیتوں یا ان کی اہلیت کو ہی مذاق کا نشانہ بنا لیتے ایسا دن رکھنے کے پیچھے کوئی جادو ٹونے یا حساب کتاب کے اثرات نکال لیتے لیکن امریکی سوال اٹھائے بغیر بزرگوں کی اس روایت پر جوں کے توں عمل کرتے ہیں۔ ایسا دن رکھنے کے پیچھے بھی ان کی اپنی لاجک ہے۔ سیدھا سیدھا منگل لکھ دیتے تو منگل یکم نومبر کو بھی آسکتا ہے پہلے سوموار کا اگلا روز لکھنے سے انتخابات نومبر کے ہہلے ہفتے میں کسی بھی وقت ہوسکتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک روایت ہے جس پر امریکیوں کو کوئی اعتراض نہیں تو ہم کون ہوتے ہیں۔ دن تو ہمارے آئین میں بھی مقرر ہیں جس کے مطابق مئی 2028ء سے قبل ملک میں انتخابات ہونے ہیں۔ لیکن ہم میں سے کسی کو بھی آئین کے ان الفاظ پر یقین ہے نہ اس کا احترام۔ تبھی تو پانچ سال ہر سال کو انتخابات کا سال قرار دیتے چلے آتے ہیں اور پھر آخری سال جب انتخابات ہونا ہوتے ہیں انتخابات نہ ہونے کی بے یقینی پھیلاتے چلے جاتے ہیں۔ بہرحال بات ہو رہی ہے امریکا اور امریکیوں کی ہم کہاں اپنے دکھڑے کھول کر بیٹھ گئے تو اس سال سوموار کا اگلا روز یعنی منگل پانچ نومبر کی تاریخ امریکا کے لیے تو اہم ہے ہی دنیا بھر کے لیے بھی یہ دن اہم بن چکا ہے۔ امریکا میں دو پارٹیاں مقابلے میں ہوتی ہیں ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز، یعنی ہمارے مطابق امریکا میں دو جماعتوں نے باریاں لگائی ہوئی ہیں۔ ایک کا نشان ہاتھی ہے اور ایک کا گدھا۔ اس سے ہمیں اس جانور کی عالمی سطح ہر اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے جسے ہم نے ناکارہ قرار دے رکھا ہے اور اپنے نکمے ترین آدمی کو گدھے سے تشبیہ دے دیتے ہیں جبکہ اسے دنیا کے سپر پاور ملک کے طاقتور ترین عہدے کے لیے انتخاب لڑنے والے امیدوار نے اپنا انتخابی نشان بنا رکھا ہے۔ اس کی بھی اپنی تاریخ ہے لیکن یہاں بات حال کی کرنی ہے اور کچھ مستقبل قریب کی۔ 5 نومبر کے امریکی انتخاب میں جو بھی جیتے ایک نئی تاریخ رقم ہوگی۔ پہلی بار کوئی صدر مسلسل منتخب ہونے کی بجائے ایک وقفے کے بعد دو بار صدر بنے گا اور یہاں یہ بات زہن میں رکھنا بھی ضروری ہے کہ امریکا میں کوئی بھی شخص دو بار سے زیادہ امریکی صدر نہیں بن سکتا اور دوسری صورت میں پہلی بار کوئی سیاہ فارم اور خاتون امریکی صدر بنیں گی۔ مقابلہ سخت ہے۔ اس سے پہلے موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن صدارتی امیدوار تھے۔ موجودہ صدر سے ایک اور موازنہ ذہن میں آگیا کہ نہ کوئی نگران حکومت نہ کوئی غیر جانبدار سیٹ آپ وہی صدر تب تک فرائض سرانجام دیں گے جب تک نئے صدر حلف نہیں اٹھا لیتے اور ہمارے یہاں جو نگرانیاں ہوتی ہیں وہ آپ بخوبی جانتے ہیں اور پھر بھی ہم اگلے پانچ سال انتخابات میں دھاندلی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ تو بات ہورہے تھی جو بائیڈن کی تو ان کو بلا شبہ ان کے حریف امیدوار نے پہلے براہ راست مباحثے میں ناک آؤٹ کردیا اور ان کی اس کارکردگی کو دیکھتے ہوئی ہے ان کی جماعت نے ان کی نائب کملا ہیرس کو امیدوار نامزد کیا جنھوں نے بھرپور مہم چلائی اور ٹرمپ جو پہلے سرویز میں بہت آگے تھے انیس بیس کے مقابلے میں آگئے۔ کہتے ہیں امریکا میں جو بھی جیتے، اہم ہالیسیاں ریاست ہی کی ہوتی ہیں جو جاری رہتی ہیں۔ لیکن اس بار کا انتخاب کچھ معاملات پر اثر ڈالے گا اس میں سب سے اہم اسرائیل فلسطین اور ایران کی جنگ ہے۔ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ اسرائیل کو جنگ بند کرانے پر آمادہ کرسکتے ہیں ٹرمپ کی پالیسیاں جارحانہ اور واضح رہی ہیں۔ اس لیے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ معاملات کو آر یا پار کرنے کے قائل ہیں اور اسرائیل کے معاملے پر بھی کچھ ایسا ہوسکتا ہے اور غیر ملکی تارکین وطن کے حوالے سے بھی ان کی سوچ بڑی واضح ہے جس کا وہ بار بار کھل کر اظہار کرتے چلے آئے ہیں اور ان کے ‘‘امریکا پہلے’’ کے نعرے نے امریکیوں میں ان کی مقبولیت کو بڑھایا ہے دوسری جانب کملا ہیرس کی کامیابی کا مطلب یہی ہوگا کہ جیسا چل رہا ہے اس میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آنے والی۔ اس بار تو ہم نے بھی امریکی انتخابات سے امیدیں وابستہ کررکھی ہیں نہ جانے کیوں۔ ٹرمپ آئے گا عمران خان کو رہا کروائے گا جیسے سوشل میڈیا گوسپس پو بہت سے لوگ حقیقت میں درست مان کر امیدیں لگا بیٹھے ہیں۔ بہرحال اس سب سے ہٹ کے یہ انتخابات اہم ہیں اور فیصلہ امریکیوں نے کرنا ہے ہم تو دھاندلی کے الزام لگانے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔

ای پیپر دی نیشن