پاکستان سے ہزاروں میل دور امریکہ میں آج انتخابات ہو رہے ہیں یقینی طور پر یہ انتخابات پوری دنیا میں زیر بحث ہیں کیونکہ امریکہ سپر پاور ہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں اپنا اثرورسوخ رکھتاہے اس لیے امریکہ میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں پوری دنیا کو تجسس رہتا ہے۔ لیکن پاکستانی دوسرے لوگوں سے کچھ زیادہ ہی دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ انتخابات امریکہ میں ہو رہے ہیں لیکن وخت ہمیں پڑا ہوا ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی جگاڑ لگا رہا ہے، ٹرمپ آ گیا تو یہ ہو جائے گا، کیملا ہیرس آ گئی تو یہ ہو جائے گا۔ سب سے دلچسپ صورتحال بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے ہے۔ تحریک انصاف کے 60 فیصد لوگ یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ اگر ٹرمپ جیت گیا تو بانی پی ٹی آئی کو جیل میں رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ ٹرمپ بانی پی ٹی آئی کا یار ہے۔ ادھر ٹرمپ کی جیت کا اعلان ہونا ہے، ادھر بانی پی ٹی آئی جیل سے باہر ہوں گے۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو اقتدار سے نکالنے میں بھی امریکہ کا ہاتھ تھا اور اب جیل سے نکالنے میں بھی امریکہ کا دباؤ کام دکھائے گا۔ کچھ تو کیملا ہیرس کو بھی بانی پی ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ جیتیں یا ہیرس بانی کی رہائی اب یقینی ہو چکی ہے۔ یہ تو ایک خاص طبقے کی سوچ ہے لیکن عمومی طور پر بھی ہمارے ہاں ٹاپ سے لے کر گلی محلے تک، ہر جگہ امریکن الیکشن زیر بحث ہیں۔ یہاں تک کہ اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریٹس میں بھی بحث ہو رہی ہے۔ لوگ یہ بھی اندازے لگاتے پائے جاتے ہیں کہ کس کے جیتنے سے مسلمانوں پر کیا اثرات آئیں گے، فلسطین پر مسلط جنگ ختم ہو گی یا نہیں۔ اسی قسم کی صورتحال کسی زمانے میں یورپ میں ہوا کرتی تھی جب کبھی ترکی میں خلیفہ کی تبدیلی کا وقت آتا تو پورے یورپ سمیت دنیا میں بحث ہوتی تھی کہ فلاں آ گیا تو یہ ہو جائے گا فلاں آ گیا تو یہ ہو جائیگا۔ طاقت کا اپنا حسن اور دلچسپی ہوتی ہے۔ابھی سب سے زیادہ امریکہ میں بسنے والے تارکین وطن کی جان کو لالے پڑے ہوئے ہیں اور ان میں سے بھی مسلمان سب سے زیادہ پریشان ہیں کہ نہ جانے ان کے ساتھ کیا سلوک ہونے جا رہا ہے۔ امریکہ کے انتخابات کا جو بھی رزلٹ سامنے آئے لیکن ایک بات واضح ہے کہ اگر ٹرمپ ہار گیا تو سیدھی بات ہے اس نے نتائج قبول نہیں کرنے اور امریکہ جیسے معاشرے میں بھی دما دم مست قلندر ہو گا ٹرمپ بھر پور احتجاجی تحریک چلائے گا اور ماحول پاکستانی معاشرے جیسا ہو جائے گا البتہ اگر ٹرمپ جیت گیا تو خاموشی سے نتائج تسلیم کر لیے جائیں گے۔ ویسے ٹرمپ اپنی جیت کے بارے میں بہت زیادہ پر اعتماد دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کی باڈی لینگویج بتا رہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو جیتا ہوا تصور کر رہے ہیں۔ ویسے خواتین کا ٹرمپ کی زندگی میں بڑا عمل دخل رہا ہے، ان کی ذات کسی نہ کسی حوالے سے خواتین کے ساتھ زیر بحث رہی ہے۔ پہلی دفعہ جب ٹرمپ جیتا تو اس وقت بھی ان کامقابلہ ایک خاتون امیدوار ہیلری کلنٹن سے تھا۔ سب سروے ہیلری کی جیت ظاہر کر رہے تھیلیکن ٹرمپ خاتون امیدوار سے جیت گئے تھے۔ دوسری بار جب ان کا پالا مرد امیدوار سے پڑا تو وہ جوبائیڈن سے ہار گئے تھے۔ اب پھر معرکہ آرائی میں ان کے مدمقابل خاتون ہیں اور امریکہ میں آج تک کوئی خاتون صدر نہیں بن سکی۔ اگر کیملا ہیرس جیت جاتی ہیں تو وہ امریکہ کی پہلی خاتون صدر ہوں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں جو بھی صدر بنے ان کی پالیسیوں پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ انھوں نے اپنے ملک کا نظام ایک طے شدہ سسٹم کے مطابق چلانا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے بارے میں ان کی پالیسیاں پہلے سے طے شدہ ہیں جن میں کوئی بڑی تبدیلی ممکن ہی نہیں۔ غزہ میں اگر جنگ بندی ہونی ہے تو اس میں اسرائیل کی رضامندی سے ہونی ہے مسلمانوں کی محبت یا ان پر ترس کھا کر نہیں ہونی۔ اسی طرح عالم اسلام نے فی الحال ابھی رگڑا کھانا ہی کھانا ہے البتہ امریکن معاشرے کی کسی بھی ابتری کا فائدہ چین اور روس کو ہو سکتا ہے اور ان کا دباؤ کسی معاملہ میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ جب باراک حسین اوباما صدر بنے تو کہا جا رہا تھا کہ ان کے والد مسلمان تھے ان کے منتخب ہونے سے ان کی مسلمانوں کے بارے میں ہمدردیاں بڑھیں گی۔ لیکن ان کی ہمدردیاں مسلمانوں کے خلاف ہی نظر آئیں۔ امریکن کے نزدیک سب سے اہم تعلق مفادات کا ہے۔
جس سے ان کو مفاد ہوتا ہے اس کو وہ آنکھ کا تارا بنا لیتے ہیں اور جس سے مفاد نہیں ہوتا اس کو بے اعتنائی میں مار دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں امریکہ کی یاری لیاقت علی خان ،ایوب خان ،ذوالفقار علی بھٹو ،جنرل ضیاء الحق ،جنرل پرویز مشرف ،بینظیر بھٹو بھگت چکی ہیں اور جو لوگ ابھی بھی سمجھ رہے ہیں کہ امریکنز ان کے خیر خواہ ہیں وہ بڑی بھول میں ہیں۔ امریکنز ماتھے پر آنکھیں رکھتے ہوئے ایک منٹ نہیں لگاتے۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا کہ وہاں معاملات شخصیات کی خواہشات کے تابع نہیں سسٹم کے تابع ہیں۔ وہ اپنی روایات سے بھی روگردانی نہیں کرتے وہاں ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے ہفتے منگل کے روز الیکشن ہونے ہیں کوئی طوفان کوئی آندھی کوئی آفت ان کی انتخابی تاریخ کو آگے پیچھے نہیں کر سکتی۔ ہمارے ہاں آئین جائے بھاڑ میں جس کے ہاتھ اختیار لگ جائے پھر اس کی مرضی ہے کہ وہ الیکشن کروائے نہ کروائے، کب کروائے کیسے کروائے، یہ اس کی خواہش ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ شخصیات کی طرف دیکھتے ہیں سسٹم کی طرف نہیں۔ ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ہونا وہی ہے جو طاقتور چاہتا ہے۔ ہمارے والے سسٹم کا مہذب معاشروں میں تصور بھی نہیں ہم نے تو اقتدار کو خالہ جی کا ویہڑا بنا رکھا ہے جس میں جس کا دل کرتا ہے وہ پیل گولی کھیل رہا ہوتا ہے۔ جس کا دل کرتا ہے گلی ڈنڈے سے دل بہلا رہا ہوتا ہے، جس کا دل کرتا ہے وہ پٹھو گرم اور باندر کلہ کھیلنا شروع کردیتا ہے اور جب کسی بڑے کا دل کرتا ہے وہ ٹھڈا مار کر سب کچھ ملیا میٹ کر دیتا ہے۔ اب بہت ہو چکی۔ عوام ان کھیل تماشوں سے اکتا چکے۔ اب ہمیں بھی ہوش کے ناخن لے لینے چاہیں، ہمیں بھی کوئی نہ کوئی سسٹم اپنا لینا چاہیے۔ اب ایسے کام چلنے والا نہیں اس کے اثرات بہت خوفناک ہو سکتے ہیں۔ ہمیں دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے معاملات اپنے گھر کے اندر ہی طے کرنا ہوں گے اور اب طے کرلینے چاہیں۔