مجھے یہ کالم پچھلے ہفتے لکھنا تھا مگر امریکی سنٹرل کمان نے تیزی دکھائی اور ایک جریدے میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو خراج تحسین پیش کیا۔ ہماری آئی ایس پی آر سینٹ کام سے بھی تیز نکلی اور اس نے ملکی اور غیر ملکی میڈیا تک اس تحریر کی خوشبوئیں بکھیر دیں۔ میں نے بھی بہتر جانا کہ اسی مواد کو بنیاد بنا کر ایک کالم لکھ دوں مگر میرا دماغ اپنے اس کالم سے مطمئن نہ ہوسکا۔ آرمی چیف مجھے جانتے تک نہیں ہوں گے لیکن میں نے پچھلے کچھ عرصے میں ان کی شخصیت، ان کی سوچ اور ان کے کردار کو سمجھنے کی پوری کوشش کی۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ پاکستان آرمی کے چیف ہی نہیں بلکہ ملک کے مسیحا بھی ہیں۔
میں سکندر اعظم، جنرل ڈیگال، جنرل منٹگمری، جنرل رومیل کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتا، لیکن جب میں خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی ، محمد بن قاسم ، محمود غزنوی اور سلطان محمد فاتح کے اسمائے گرامی زبان پر لاتا ہوں تو میرے قلب و ذہن میں کئی ایک کہکشائیں جگمگانے لگتی ہیں۔ بلاشبہ پاکستانی جرنیل بلند پایہ سپہ سالار ہیں۔ جنرل موسیٰ نے 1965ء میں کامیاب دفاعی جنگ لڑی، جنرل ضیاء الحق نے ہمسایہ مسلم ملک افغانستان پر یلغار کرنے والی سپر طاقت سوویت یونین کی افواج کی طاقت کا غرور پاش پاش کیا اور اشتراکی بلاک کا نقشہ بدل ڈالا۔ جنرل پرویز مشرف نے دہشت گردی کے فتنے کو اس طرح کچلا کہ امریکہ اور نیٹو کی افواج دنگ رہ گئیں، اس سے پہلے جنرل مشرف نے کارگل میں ایک چھوٹا سا آپریشن کیا اور بھارتی افواج کی لاشوں کے ڈھیر لگادیے۔ اس جنگ کے بارے میں پاکستان میں دو آراء پائی جاتی ہیں مگر کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ کارگل کی جنگ میں بھارت نے شکست فاش اٹھائی اور آج تک کی تاریخ میں بھارت میں جتنے بھی کورٹ مارشل ہوئے، ان میں کارگل کی شکست پر ہونے والے کورٹ مارشل سب سے زیادہ ہیں۔ افواج ِ پاکستان کے سربراہان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ملک کے دفاع کو ناقابل ِ تسخیر بنادیاہم نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی، بین البراعظمی میزائلوں کے کامیاب تجربے کیے جس پر دنیا ہماری افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکی۔
جنرل عاصم منیر نے ایک ایسے وقت میں فوج کی کمان سنبھالی، جب اندرون ِ ملک اور بیرون ِ ملک ففتھ جنریشن وار اپنے عروج پر تھی۔ پاکستان اپنے قیام کے وقت سے کسی دشمن ملک کو ہضم نہیں ہوسکا، لیکن ہماری بہادر افواج نے اپنے قیمتی خون کے نذرانے دے کر دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا۔ اس پر ہمارے دشمنوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور پاکستانی فوج کو اندر سے کمزور کرنے کے لیے سازشوں کے جال بچھائے۔ امریکی افواج کے ایک افسر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستانی قوم ڈالر کے لالچ میں اپنی ماں کو بھی بیچ سکتی ہے۔ اب تو عالمی سازشیوں نے اس قدر ڈالر ملک میں پھینک دیے ہیں کہ پاکستان کو 9 مئی 2023ء کا المناک دن دیکھنا پڑا۔ باریک کام تو پہلے سے شروع تھا اور فوج کی اعلیٰ قیادت کو سیاست میں گھسیٹا جارہا تھا، عمران خان وزیراعظم کے منصب پر بیٹھ کر فوج کو مغلظات سنارہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ فوج نیوٹرل ہونے کی کوشش کررہی ہے حالانکہ نیوٹرل صرف جانور ہوتا ہے۔ کبھی دھمکی دیتے کہ اگر مجھے حکومت سے نکالا گیا تو میں زیادہ خطرناک ثابت ہوں گا۔ بس اپوزیشن لیڈر کے طور پر انھوں نے اسلام آباد ڈی چوک میں مہینوں تک دھرنا دیا تو اس وقت لوگوں کو اکسایا کہ وہ حکومت کو بجلی کے بل ادا نہ کریں اور بیرون ملک پاکستانی ہنڈی کے ذریعے اپنی رقوم بھیجیں تاکہ حکومتی خزانہ ڈالروں سے خالی ہوجائے۔ پاکستان کو ڈیفالٹ کی طرف دھکیلنے کی یہ پہلی کوشش تھی۔ اقتدار میں آ کر اور پھر اقتدار سے نکل کر انھوں نے ڈیفالٹ کا ایک ہولناک بیانیہ عوام کے سامنے رکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے عالمی طاقتیں اس سے ایٹمی اور میزائل پاور چھین لیں گی اور اس کے بدلے میں ہی پاکستان کو نئے قرضے مل سکیں گے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ عمران خان اپنی زبان بول رہے تھے۔
آرمی چیف کو اپنا منصب سنبھالنے کے فوری بعد اندرونی انتشار کا سامنا کرنا پڑا۔ عمران خان نے لاہور کے دل مال روڈ پر زمان پارک میں اپنا مورچہ لگایا، وہاں بیٹھ کر اپنی تخریبی سازشیں پروان چڑھائیں، افغان اور قبائلی علاقوں کے دہشت گردوں کو اپنی سکیورٹی کے نام پر اپنے اردگرد جمع کیا، ان کے سامنے پنجاب کی نگران حکومت بے بسی کا منظر پیش کررہی تھی، پنجاب کی پولیس کو زمان پارک کی طرف بڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی، پولیس کی گاڑیوں کو الٹایا گیا، جلایا گیا، اعلیٰ پولیس افسروں اور جوانوں کو دہشت گردوں نے غلیلوں سے سنگ مر مر کے ٹکڑوں سے نشانہ بنایا، جس سے ایک پولیس افسر کی بینائی چلی گئی، کوئی کسر باقی تھی تو گلگت کے وزیراعلیٰ اپنے خونخوار لشکر کے ساتھ لاہور پر چڑھ دوڑے، ہر ایک کو نظر آرہا تھا کہ دہشت گردوں اور عوام کو پاک فوج پر چڑھائی کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ چنانچہ 9 مئی 2023ء کو پوری تیاری کے ساتھ ان باغیوں نے ملک بھر میں 200 حساس فوجی تنصیبات پر حملہ کردیا۔ لاہور کے کور کمانڈر کا گھر جلایا گیا، میانوالی کے ایف سولہ کے اڈے پر تباہی مچانے کے لیے ہلہ بولا گیا، سرگودھا میں فضائیہ کے اعصابی مرکز کو نشانہ بنایا گیا، شہیدوں اور غازیوں کی تصویروں کو پائوں تلے روندا گیا، راولپنڈی میں واقع جی ایچ کیو میں گھسنے کی کوشش کی گئی، یہ سارا منظر کسی بغاوت اور غدر کے منظر سے کم نہیں تھا۔ فوج کے کئی اعلیٰ افسروں کو باغیوں نے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی اور خانہ جنگی اور اندرونی انتشار کی راہ ہموار کی گئی۔ اس قیامت خیز عالم میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ایک پرسکون حکمت عملی کے ذریعے اس بغاوت کو ناکام بنایا، انھوں نے نہ تو فوج کو آپس میں ٹکرانے کا موقع فراہم کیا، نہ عوامی بغاوت کے شعلوں کو بھڑکنے دیا۔ یوں اپنے پہلے امتحان میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر پوری طرح کامیاب رہے۔
یہ ایک چومکھی جنگ تھی، جنرل عاصم منیر نے فولادی اعصاب کے ساتھ ہر محاذ پر دشمن کو شکست دی، ملکی معیشت کو بحران سے نکالنا ضروری تھا، یہ محاذ بھی جنرل عاصم منیر نے کامیابی سے سر کرلیا، انھوں نے چین، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کو پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا کیا اور حکمت و تدبر کے ساتھ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کیا۔ آج ملک میں کوئی سیاسی بحران نہیں، راوی ہر سو چین لکھتا ہے۔ معاشی ڈیفالٹ کے ڈرائونے خواب کو لوگ بھول چکے، جنرل عاصم منیر نے ملک و قوم کو ایک روشن مستقبل کی طرف آگے بڑھنے کا موقع فراہم کردیا ہے۔