خوف سے پرے ہے زندگی

Nov 05, 2024

محمد دلاور چودھری

انسانی شعور زیادہ پرانا ہے یا اس کے گرد ناچتے خوف کے سائے۔ یہ بتانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا اس پر اظہار خیال کرنا کہ مرغی پہلے آئی یا انڈہ… ہسٹری آف سائنس کے برطانوی ماہر رابرٹ پیکہم  Peckham Robert نے اپنی کتاب ’’خوف‘‘ (Fear) میں لکھا ہے کہ ’’خوف تو ازل سے اپنا ساتھی رہا ہے۔ انسان کے شعور کی ترقی کے ساتھ ساتھ بھوت پریت سے خوف نے بھی لگ بھگ اسی رفتار سے ترقی کی ہے۔ اس کے علاوہ زمانہ قدیم میں درندوں کے حملوں کا خوف بھی کہیں زیادہ ہوا کرتا تھا۔ زراعت کی ترقی اور سلطنتوں کے وجود میں آنے کے بعد بھوت پریت اور درندوں کے خوف کی جگہ بہت حد تک ’’حکمرانوں‘‘ نے لے لی اور خوف سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے بہت بڑا مہرہ قرار پایا‘‘ 
مٹی کے بنے فانی انسانوں نے ایسے ہی نہیں خداؤں کا روپ دھار لیا تھا بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ ’’رعایا‘‘ ٹیکس جمع کراتی اور نظریں جھکاتی رہے۔ کام والوں کی قدر ہو یا نہ ہو بلکہ نہ ہی ہو اور نام والوں کا نام چلتا رہے۔ خوف کے بنائے ’’پنجروں‘‘ میں مخلوق خدا بیٹھی سہمی رہے اور زمین کے یہ نام نہاد خدا نسل در نسل حکومتیں کرتے رہیں۔
ارتقائی بیالوجی کے ماہر گورڈن اوریان کہتے ہیں کہ ’’انسانی ذہن پر ہزاروں سال سے پڑنے والے خوف کے اثرات بہت گہرے اور جھنجھوڑ دینے والے ہیں ‘‘ یعنی خوف کا عنصر نہ ہوتا یا بہت کم ہوتا تو آزاد فضاؤں میں انسان زیادہ بہتر انداز میں اپنی تہذیب کو پروان چڑھا سکتا تھا۔ خوف وہ عمل ہے جو انسانی ذہنوں سے لوہے کی ٹوپی بن کر چمٹ جاتا ہے اور دماغ کو اتنا چھوٹا کر دیتا ہے کہ انسان آزادی سے بات کرنے کی بجائے ’’زمینی خداؤں‘‘ سے نظر چرا کر اور جسم و جاں بچا کر گزرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ 
سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے خوف کے عمل کو کس طرح آگے بڑھایا جاتا ہے اور جا رہا ہے اس پر غور کرتے ہوئے مجھے مایہ ناز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے مضمون ’’ایک اشک آلود اپیل‘‘ کی چند سطریں یاد آئیں جو 47ء کے ہندو مسلم فساد کے پس منظر میں لکھا گیا تھا۔ منٹو کہتے ہیں کہ ’’دنیا میں جہاں اہل درد اور انسانیت دوست انسان ہیں وہاں ایسے بھی ہیں جن کا بیشتر وقت تلواروں اور چھریوں کی دھاریں تیز کرنے میں گزرتا ہے اور وہ ہر وقت ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ وہ اپنے تیز کئے ہوئے ہتھیار لوگوں کے ہاتھ میں دیکر خونریزی کا سماں دیکھیں اور پھر خون کے اس تالاب سے اپنی حرص اور اپنے مفاد کی پیاس بجھائیں۔"
عظیم شاعر ساحر لدھیانوی نے اپنی طویل نظم ’’پرچھائیاں‘‘ میں ایسے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ ’’بہت دنوں سے سیاست کا یہ مشغلہ ہے کہ بچے جب جوان ہو جائیں تو قتل ہو جائیں‘‘۔ 
ساحر نے اس پر ہی بس نہیں کی بلکہ مزید آگے بڑھ کر یہ بھی پوچھ لیا ہے کہ 
اے رہبر ملک وقوم بتا 
آنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا 
کچھ ہم بھی سنیں، ہم کو بھی بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
یہ بچے اپنے خون کی آبیاری سے کسی کے اقتدار کا سنگھاسن مضبوط کریں اور منوں مٹی تلے گمنام سپاہی بن کر چپکے سے ایسے سو جائیں کہ ہولے سے بادنسیم چلے تو بھی کسی کے دل میں ان کی کھوئی ہوئی یاد نہ آئے بس مائیں بیٹھی تڑپا کریں خوف کا کاروبار عروج پر رہے اور کہانی ختم …
دہائیاں گزریں ڈاکٹر انور سجاد کے ایک کردار کا جملہ ابھی تک میرے کانوں میں تازہ ہے اور وہ جملہ ہے کہ ’’زیادہ امید اور خوف میں انسان ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتا ہے۔‘‘ سوچتا ہوں امید تو مثبت جذبہ ہے اس کی مقدار زیادہ ہونے پر ٹوٹ پھوٹ شاید اس لئے ہو گی کہ مولانا روم فرماتے ہیں کہ ’’ہر چیز جو ضرورت سے زیادہ ہو زہر بن جاتی ہے۔‘‘ پھر چاہے وہ امید ہی کیوں نہ ہو اور خوف ایک منفی جذبہ ہے جو ہے ہی شکست و ریخت کی علامت، شخصیات کو مسخ اور قوموں کو ملیا میٹ کرنے کا احساس… تہذیبوں کی تباہی کی اولین وجہ… کہا جاتا ہے کہ آریا لوگ جب آئے تو داس قبائل نے ان کو زبردست مزاحمت دی۔ لیکن جب آ ریا لوگوں نے فتح پالی تو خوف کا عذاب مسلط کرنے کیلئے داس کے مفہوم ہی بدل دیئے اور اس لفظ کو غلام کا متبادل تصور کر لیا گیا بالکل اسی طرح جس طرح جنوں کا نام خرد اور خرد کا نام جنوں رکھ دیا جاتا ہے اور خوفزدہ کرنے والا حسن کرشمہ ساز جو چاہے کر گزرتا ہے بلکہ حد سے گزرتا ہے۔
 پھر وہی ہوا جو ہوا کرتا ہے۔ نہ بانس رہا نہ بانسری بجی اور داس لوگ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے احساس کمتری کے خوف میں مبتلا ہو گئے۔ یہی حال انگریز نے ٹیپو سلطان کے قابل احترام فوجی عہدے ’’خان ساماں‘‘ کے ساتھ کیا اور اسے باقاعدہ ٹیپو سلطان کی دی وردی جیسا لباس پہنا کر باورچی خانے میں لا بٹھایا۔ آج اتنا ہی کافی ہے کہ بیبونوں یا بندروں کی بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ آج بات دور تک نہیں جانی چاہئے اور ہم پر مسلط کردہ خوف کے گرد ہی منڈلاتی رہے تو بہتر ہے۔
ہمیں آزادی تو ملی لیکن اشرافیہ نے نوآبادیاتی چلن نہیں چھوڑے۔ ہر عہدے کے بڑے اور ظرف کے چھوٹے صاحب کے دفتر کے باہر ’’بغیر اجازت اندر آنا منع ہے‘‘ کی تختی آویزاں ہوتی گئی۔ اسی طرح عدالتوں میں ’’مائی لارڈ‘‘ کے ذہنوں کو چیرتے الفاظ… خواص کی گزرگاہوں کے باہر ’’داخلہ منع ہے اور خبردار‘ یہ شاہراہ عام نہیں‘‘ جیسے تازیانے جابجا ملتے رہے اور اگر اس جراحت قاتل سے دل کو بخشوا لائے تو اگلے مرحلوں میں عوامی عمارتوں کے آگے کھڑے عوامی ٹیکسوں سے اطلس و کمخواب کے لباس پہنے گارڈز کو عوام پر ہی چڑھائی کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا جو خداؤں کے لہجے میں بات چیت کے الگ سے عادی ہو گئے۔ 
آزاد معاشروں میں تو ’’خوف کے عذاب نہیں ہوا کرتے۔ ملک اور ریاست عوام کے ہیں تو پھر ’’سختی سے منع ہے‘‘ والے بورڈ چہ معنی دارد؟ اور جگہ جگہ بھونپو بجاتے اور عوام کو ڈراتے تیزی سے گزرتے اپنا اور ملک کا راستہ کھوٹا کرتے پروٹوکول کے قافلے کیوں ہیں؟ ڈرے سہمے عوام تو سمجھ ہی نہیں پاتے کہ حرکت تیز تر اور سفر آہستہ بلکہ انتہائی آہستہ طے کرنے والے یہ لوگ آخر جاکہاں رہے ہیں۔؟؟
آج کے دور کی پل پل بدلتی صورتحال میں جسے امریکی صحافی فرید ذکریا نے ایج آف ریولیوشنز (AGE OF REVOLUTIONS)کا نام دیدیا ہے۔آخر ہم نے اپنے ہی ملک میں اپنے ہی لوگوں کو خوف کے عذاب میں مبتلا کر کے کیا حاصل کرنا ہے؟ ہم کون سی ترقی کرنا چاہتے ہیں؟ اگر اس ملک کو آگے لے جانا ہے تو اس کے باسیوں کو احترام دیں کہ یہ اپنے ہی لوگ ہیں کسی ’’داس قبیلے‘‘ یا ’’خان ساماں‘‘ کی نسل سے جنم نہیں لیا اور نہ ہی ہماری اشرافیہ آریا لوگوں یا انگریزوں کی طرح کسی دور دیس سے آئی ہے۔ عوام کو آزادی سے آگے بڑھنے دیں کہ اس کے سوا آگے بڑھنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ غلاموں سے زور بازو سے مزدوری لی جا سکتی ہے مستحکم معاشرے تشکیل نہیں دیئے جا سکتے۔ خوف کے ماحول میں انسان اور معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتے ہیں۔
 ڈر کس بات کا ہے۔ اور ہے تو سب مایا ہے، سب بناوٹ ہے اور اپنے ہی لوگوں کو نو آبادی بنا کر نسلوں تک حکمرانی کے چکر ہیں اور ڈر نہیں ہے تو آگے بڑھیں اور اپنے لوگوں کو ساتھ لیکر چلیں اور انہیں ’’سخت منع ہے‘‘ جیسے تازیانوں سے تو نہ ماریں۔
امریکی مصنف اور موٹیویشنل سپیکر جیک کین فیلڈ نے کیا خوب کہا ہے :
 ’’آپ جو کچھ بھی چاہتے ہیں وہ خوف کی دوسری جانب موجود ہے۔‘‘

مزیدخبریں