منگل‘ 2 جمادی الاول 1446ھ ‘ 5 نومبر2024ء

شکار پور میں کچے کے ڈاکوئوں پر ڈرون حملے‘ 9 ہلاک 45 زخمی۔
چلو جی بالآخر ڈرون کا بہترین استعمال کیا جانے لگا ہے۔ کچے کے علاقے میں پولیس اور رینجرز نے یہ فیصلہ بڑی سوچ سمجھ کے ساتھ کیا ہوگا۔ جس نے بھی اس کام کا مشورہ دیا‘ اسے تو سات توپوں کی سلامی دینی ہوگی کیونکہ مارٹر گن کلاشنکوف بکتر بند دستے بھی ان دریائی چوہوں پر قا بو پا نے میں ناکام ثابت ہو رہے تھے۔ جب جرائم پیشہ لوگ منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ میں ڈرون کا استعمال کر رہے ہیں تو قانون نافذ کرنے والے کیوں نہ کریں۔ اس میں خرچہ بھی کم آئیگا اور ہدف بھی سو فیصد حاصل ہوگا۔ گزشتہ روز شکارپور کے علاقے میں دیکھ لیں کہ پہلی بار ہی ڈرون حملے میں نو دریائی چوہے انجام کو پہنچے اور 45 زخمی ہو گئے۔ خدا جانے انکی لاشیں کس نے اٹھائیں اور زخمیوں کو کون لے گیا ہوگا۔ اب ذرا ان کو ہھی پکڑا جائے ‘ یہی لوگ سہولت کار ہوتے ہیں۔ یہ بہت اچھا رزلٹ ہے۔ اگر ڈرون سے ان ڈاکوئوں کو مارا جا سکتا ہے تو ڈرون دستہ دیکھتے ہی دیکھتے لاتعداد جنگلی سوروں کے جھنڈ مار گرا سکتے ہیں تو تاخیر کیوں۔ یہ لوگ بھی تخریب کار مسلح گروہ ہی تو ہیں۔ انہیں اب مزید رعایت نہ دی جائے۔ یہ پہلے ہی پولیس اور رینجرز کو ویڈیو میں اسلحہ دکھا کر للکارتے رہے ییں۔ اب سکیورٹی اہلکار بھی ڈرون بھیج کر ان کو بھگا بھگا کر ماریں۔ اطلاعات کے مطابق ڈاکوئوں میں ڈرون حملے کے بعد اتنے بڑے پیمانے پر جانی نقصان سے خوف پھیل گیا ہے اور وہ پولیس رینجرز‘ انکی بکتربند گاڑیوں‘ راکٹ لانچروں سے زیادہ اب ان سے خوفزدہ ہیں کیونکہ یہ موت کا فرشتہ بن کر اچانک کسی بھی وقت انکے سر پر آکر انکی جان لے سکتا ہے۔ اب یہ دریا میں پانی کم ہونے کی وجہ سے ادھر ادھر بھاگنے کی کوشش کرینگے تو انتظامیہ پہلے ہی سے ان کی راہیں مسدود کرلے اور ان کو بچ کر جانے نہ دے۔ انہوں نے بہت ظلم ڈھایا۔ اب حساب برابر کرنے کا وقت آگیا ہے۔ یہی سمجھا جائے کہ سیلابی پانی کے بعد نکلنے والے سانپوں کو کچلا جا رہا ہے۔ 
٭…٭…٭
جائیداد کیلئے بیٹے نے باپ کو سانپ سے ڈسوا لیا۔ 
 کچھ عرصہ قبل قتیل شفائی نے موجودہ صورتحال کی خوبصورت عکاسی کرتے ہوئے کمال کا ایک شعر کہا تھا
مقید کردیا یہ کہہ کے سانپوں کو سپیروں نے
یہ انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا مو سم ہے
آج کل یہی حقیقت ہمارے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ والدین جن کیلئے دن رات ایک کرکے حلال حرام کی پرواہ کئے بغیر بس مال بنانے کے چکر میں لگے رہتے ہیں‘ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جن بچوں کیلئے‘ اولاد کیلئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں‘ وہ جوان اور خودمختار ہونے کے بعد اس گھر‘ دکان‘ زمین یا کاروبار کیلئے اپنے والدین اور بہن بھائیوں کا خون بہانے سے بھی نہیں چوکتے۔ اس کو خون سفید ہونا بھی کہتے ہیں۔ کوئی گولی مار دیتا ہے‘ کوئی زہر دے دیتا ہے‘ کوئی کلہاڑی سے کاٹتا ہے‘ توکوئی گلا دبا دیتا ہے یا دریا یا کسی نہر میں دھکا دے دیتا ہے۔ یوں جن کیلئے والدین یہ سب پاکھنڈ رچاتے ہیں‘ وہی یہ سب کچھ حاصل کرنے کیلئے انکے دشمن بن جاتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے‘ اگر یہی ہونا ہے تو پھر ہم ان کے لئے جان کیوں مارتے ہیں۔ اپنی جان کے دشمن کیوں بنتے ہیں۔ اب یہ واقعہ جو حاصل پور میں پیش آیا ہے‘ سن کر دکھ ہوتا ہے۔ اگر اولاد ایسی ہی ہو تو پھر انکے لئے کیوں مرمر کر جیا جائے اپنی خواہشات قربان کر کے انہیں ہر آسائش کیوں دیں۔ جس طرح جائیداد کے لالچ میں ایک بیٹے نے جسے سنپولیا کہیں تو بہتر ہے‘ باپ کو سانپ سے ڈسوا کر مارنے کی کوشش کی اور حالت خراب ہونے پر فرار ہو گیا۔ اب اگر باپ بچ بھی جاتا ہے تو بھی جائیداد چھوڑیں کیا ملنی‘ اس ناخلف اولاد کو جوتے پڑیں گے اور سیدھا جیل جانا پڑیگا۔یوں دین و دنیا دونوں میں خوار ہو گا۔ 
٭…٭…٭
 چالان پر موٹر سائیکل سوار اور اسکے ساتھیوں کا وارڈن پر تشدد‘ سڑک بلاک کر دی۔
  یہ ہوتی ہے چوری اور سینہ زوری۔بھاٹی چوک میں گزشتہ روز ایک موٹرسائیکل سوار نے چالان کرنے پرغصے میں آکر جو فلمی ایکشن لیا‘ اس پر تو واقعی دیکھنے والے بے اختیار پکار اٹھے ’’لگدا لہور دا اے‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ ’’بدنام ہوئے‘ بات اتنی تھی‘ کہ آنسو نکلا‘‘۔ ٹریفک وارڈن نے اس موٹر سائیکل سوار کو قانون کی خلاف ورزی پر روکا تو وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ پہلے دھونس دھمکی سے کام چلانے کی کوشش کی‘ اس سے کام نہ نکلا تو فلمی انداز میں اس نے اپنے دوستوں کو فون کرکے بلالیا۔ یوں یہ غنڈوں کا ٹولہ بھی وہاں پہنچا تو پھر جو ڈرامہ چلا‘ وہ کافی لوگوں نے دیکھا اور موبائل سے اسکی فلمبندی بھی کی۔ اس بدمعاش ٹولے نے سڑک بلاک کرکے وارڈن پر تشدد کیا اور اس سے موبائل فون اور وائرلیس چھیننے کی بھی کوشش کی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ غنڈہ عناصر جنہیں بااثر افراد کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے‘ کتنے نڈر ہو گئے ہیں۔ سرعام یوں بدمعاشی سے بھی باز نہیں آتے۔ ون ویلنگ ہو یا اشارہ توڑنا یا غلط موڑ مڑنا‘ ان کو روکیں تو یہ تشدد پر اتر آتے ہیں اور ساتھیوں کو بلا لیتے ہیں۔ اب اعلیٰ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انکے خلاف سخت ایکشن لیا جائیگا۔ مگر سب جانتے ہیں کہ ایسے اعلانات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ کیونکہ انکے سرپرست انہیں باعزت چھڑا لیتے ہیں۔ اب بھی یہی ہوگا اور یہ غنڈے پھر سڑکوں پر دندناتے قانون کی دھجیاں بکھیرتے نظر آئیں گے۔ قانون اور اسکے رکھوالے یونہی منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ 
٭…٭…٭
کامونکی میں شوہر نے زبرستی بیوی کو تیزاب پلا دیا۔ 
ابھی تک اداکارہ نرگس پر اسکے ظالم شوہر کے تشدد کی بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی‘ اس کے بری طرح تشدد سے زخمی ہونے والی تصویر دیکھ کر اسکے ظالم پولیس انسپکٹر شوہر کو سزا دینے کی باتیں ہو رہی تھیں جو اب ضمانت پر ہے‘ کہ اب کامونکی میں شوہر کے بیوی پر تشدد کا واقعہ سامنے آگیا۔ اس سے اندازہ کرلیں کہ ہمارے ہاں ملزموں اور مجرموں کو کتنی آسانی سے ضمانت مل جاتی ہے اور مظلوم متاثر لوگ انصاف کی راہ تکتے تکتے پتھرائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ موت کی آغوش میں سو جاتے ہیں۔ کبھی کسی بیوی کو شوہر پنکھے سے لٹکا کر خودکشی کا رنگ دیتا ہے‘ تو کبھی دریا، نہر یا کنویں میں پھنک کر یہ ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔دیہی علاقوں میں تو کاروکاری‘ غیرت کے نام پر قتل باعث شرف سمجھا جاتا ہے۔ اب گزشتہ روز ایک اور خاتون کو اسکے شوہر نے زبردستی تیزاب پلا دیا۔ شاید وہ اس سے جان چھڑانا چاہتا ہوگا‘ یوں آسانی سے خودکشی ثابت کرکے بچ جاتا کہ بیوی نے تیزاب پی کر اپنی جان لے لی ہے۔ مگر وہ بچ گئی چند دن ہسپتال میں رہ کر اس نے سچ بتایا ،جس کے بعد یہ خاتون بھی شوہر کے ہاتھوں مرنے والی عورتوں کی طویل فہرست میں شامل ہو گئی یعنی چل بسی۔ ایسی خواتین کے گھر والے بھی ان سانحات کے ذمہ دار ہیں۔ وہ شادی سے قبل لڑکے اور اسکے گھر والوں کے بارے میں چھان بین کیوں نہیں کرتے کہ وہ کیسے ہیں‘ کیا کرتے ہیں۔ جو بیٹیوں کو بوجھ سمجھ کر سر سے اتارنے کی جلدی میں انہیں بھیڑیوں کے پنجرے میں ڈال دیتے ہیں‘ یا پھر پسند کی شادی  کرنے کا خوفناک انجام بھی قتل کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اب نرگس تو ایک بااثر خاتون ہیں‘ خدا کرے وہ عورتوں پر تشدد کرنے والوں کو سزا دلوانے میں کامیاب ہو جائیں۔ ورنہ اس طرح یہ ذہنی مریض شوھر اپنی بیویوں کو پیٹتے اور قتل کرتے رہیں گے۔ خواہ جاہل ہوں یا پڑھے لکھے۔

ای پیپر دی نیشن