امریکہ میں آج بروز منگل صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں‘ جن میں امریکی ڈیموکریٹس کی جانب سے کمیلا ہیرس اور ری پبلکنز کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ اس حوالے سے تجزیوں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے کہ امریکی صدر منتخب ہونے کی صورت میں ٹرمپ اور کمیلا میں سے کون پاکستان کیلئے بہتر ثابت ہوگا۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوتے ہیں تو انکی پاکستان کے بارے میں کیا پالیسی ہوگی اور اسی طرح اگر کمیلا اقتدار سنبھالتی ہیں تو پاکستان سے متعلق امریکی پالیسیوں میں کوئی ردوبدل ہوگا یا نہیں۔ امریکی صدارتی انتخاب میں اس بار بالخصوص سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے عمران خان کی رہائی اور پی ٹی آئی کی اقتدار میں واپسی کے معاملہ میں ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ سے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کرلی گئی ہیں۔ پی ٹی آئی کے لوگ سرعام یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ٹرمپ کے اقتدار میں آتے ہی عمران خان جیل سے باہر آجائیں گے۔ ان توقعات کی کیا بنیاد ہے‘ اس بارے میں کچھ بھی واضح نہیں جبکہ ایسا کسی چھومنتر کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ امر واقع ہے کہ امریکہ پاکستان کو ہمیشہ سکیورٹی کے تناظر میں ہی دیکھتا آیا ہے اور گزشتہ دو دہائیوں سے واشنگٹن میں جب بھی پاکستان کا نام لیا جاتا ہے تو عموماً اسے افغانستان کے حوالے سے اہمیت دی جاتی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ میں البتہ امریکہ کی جنوبی ایشیاء پالیسی میں بھارت کو زیادہ اہمیت دی گئی اور اس بنیاد پر پاکستان امریکہ تعلقات میں کشیدگی بھی درآئی البتہ ری پبلکن یا ڈیموکریٹس میں سے کسی کی بھی حکومت سے پاکستان کو کسی خصوصی مہربانی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ بیرونی دنیا سے تعلقات کے معاملہ میں امریکی پالیسیاں صرف اسکے مفاد کے تابع ہوتی ہیں اور حکومتوں کی تبدیلی سے ان پالیسیوں میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آتی بلکہ امریکی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ بش کے عہد اقتدار میں امریکی نائن الیون کے واقعہ نے پاکستان کو امریکی فرنٹ لائن اتحادی بنایا مگر امریکہ نے پاکستان کی قربانیوں کے باوجود اس سے ڈومور کے تقاضے برقرار کھے۔ پھر باراک اوبامہ کی زیرقیادت امریکی ڈیموکریٹس اقتدار میں آئے تو بھی پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسیوں میں کسی قسم کی تبدیلی رونما نہ ہوئی اور اس سے ڈومور کے تقاضے جاری رہے۔ اوبامہ کے بعد جب ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن کے امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے تو بھی پاکستان کیلئے امریکہ کی جانب سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہ آیا بلکہ پاک امریکہ تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہو گئی ماسوائے اسکے کہ مودی کے ساتھ کشمیر کے معاملہ میں بھارت سے کئے گئے وعدے کو نبھانے کیلئے ٹرمپ نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو مکمل پروٹوکول دیکر ان کا وائٹ ہائوس میں استقبال کیا جسے عمران خان نے اپنی کامیابی سے تعبیر کیا مگر اسکے بعد بھی پاکستان سے ڈومور کے امریکی تقاضے برقرار رہے۔ ان تقاضوں میں ڈیموکریٹ جوبائیڈن کے دور میں زیادہ سختی پیدا ہوئی۔ اب امریکی صدارتی انتخاب میں کمیلا اور ٹرمپ میں سے کسی ایک کا فیصلہ ہونا ہے تاہم یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کا تعین صرف امریکی مفادات کو پیش نظر رکھ کر ہی ہوتا ہے اس لئے ہمیں بھی بہرصورت پاکستان امریکہ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کے مفادات ہی کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔