وزیراعظم محمد شہباز شریف سے برطانیہ کے معروف کاروباری وفد نے ملاقات کی۔ لاہور میں وزیراعظم سے ملنے والے برطانوی وفد کی قیادت زبیر عیسیٰ نے کی۔ وفد سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کا فروغ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ کاروباری اور تاجر برادری کو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے ذریعے سہولتیں دی جا رہی ہیں۔ حکومت کی کوششوں سے حالیہ دنوں میں معیشت بہتری کی جانب گامزن ہوئی۔ معیشت کی بہتری سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا ہے۔ وزیراعظم نے وفد کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے ترغیب دی۔ برطانوی کاروباری شخصیات نے وزیراعظم کی معاشی پالیسیوں کی تعریف کی۔ ملاقات کے دوران برطانیہ اور پاکستان کے درمیان بزنس ٹو بزنس تعلقات کو مزید بہتر بنانے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
ادھر، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے لندن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان دوبارہ ٹریک پر آرہا ہے۔ شہباز شریف معاشی استحکام کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ پاکستان میں حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ نواز شریف نے مزید کہا کہ مرکز اور پنجاب میں بہت اچھا کام ہورہا ہے۔ معاشی اعشاریے بہتر اور مہنگائی کم ہورہی ہے۔ ترقیاتی سکیمیں تیزی سے آرہی ہیں۔ پنجاب میں مریم نواز بہت اچھا کام کر رہی ہیں۔ کوشش ہے غریب آدمی کی زندگی آسان ہو جائے۔
پنجاب میں جس بہتری کی طرف نواز شریف نے اشارہ کیا ہے اس کا ایک ثبوت ہفتے کے روز وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے ہونے والی اٹلی کی سفیر ماریلنا ارمیلن کی ملاقات بھی ہے۔ ملاقات کے دوران اٹلی کی طرف سے چکوال میں زیتون کی کاشت مزید بڑھانے کی پیش کش کی گئی اور پنجاب میں لائیو سٹاک و ڈیری پراجیکٹ میں اٹالین انویسٹمنٹ پر اتفاق کیا گیا۔ اطالوی سفیر نے پنجاب میں وزیراعلیٰ کے عوامی فلاحی پراجیکٹس کو متاثر کن قرار دیا۔ ملاقات میں سیاحت، ٹیکسٹائل، لیدر، ماربل، کارپٹس اور دیگر شعبوں میں تعاون کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا گیا اور تجارتی اور ثقافتی وفود کے تبادلوں کے حوالے سے اقدامات پر بھی بات چیت کی گئی۔ مریم نواز نے کہا کہ پاکستان اور اٹلی کے باہمی ربط کو سود مند معاشی تعلقات میں تبدیل کیا جائے۔ اطالوی سرمایہ کار پنجاب آئیں، ہر ممکن سہولت دیں گے۔ پنجاب حکومت اٹلی کے ساتھ مختلف شعبوں میں مزید اشتراک کار بڑھانا چاہتی ہے۔ وزیراعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ تجارت بڑھانے کے لیے ورک ویزا میں آسانی اور ٹریڈ کمیشن کا فعال کردار کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔
اسی طرح پاکستان کی معیشت کی بہتری کے حوالے سے بات کی جائے تو اس کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ سٹیٹ بینک کی طرف سے مالیاتی پالیسی میں دو فیصد کمی کا اعلان کیا جارہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شرح سود میں کمی ہونے سے کاروباری معاملات میں بہتری آئے گی۔ مالیاتی پالیسی میں ملک کی مائیکرو اور میکرو صورتحال کے ساتھ بین الاقوامی حالات کا جائزہ لیا گیا۔ شرح سود میں کمی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ افراطِ زر میں کمی آرہی ہے جس سے مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور عام آدمی کے مسائل کم ہوں گے۔ واضح رہے کہ تاجروں نے افراطِ زر کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت سے شرح سود میں تین سے پانچ فیصد کمی لانے کا مطالبہ کیا تھا۔
بیرون ممالک سے سرمایہ کاروں کا پاکستان میں دلچسپی لینا اور دوست ممالک کا اس سلسلے میں اپنے سرمایہ کاروں کو ترغیب دینا اور وفود کی شکل میں پاکستان بھیجنا ایسی باتیں ہیں جو تسلی بخش ہیں اور ان پر حکومت کی تعریف بھی بنتی ہے کہ ملک دشمن عناصر کے تمام منفی ہتھکنڈوں کے باوجود حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں بیرونی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایس آئی ایف سی کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے اور اس کی بھی ستائش کی جانی چاہیے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے تمام اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا اور کوئی بھی محکمہ یا ادارہ اکیلا اس سب کا کریڈٹ نہیں لے سکتا۔ سیاسی عدم استحکام جو اس حوالے سے مسائل کا باعث بن رہا ہے اس کا علاج فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ چین جیسے دوست ممالک بھی اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام پر قابو پانا جانا چاہیے۔
افراطِ زر اور شرح سود میں کمی کی بنیاد پر حکومت کی جانب سے متواتر معیشت کی بہتری اور ملک میں بڑھتی سرمایہ کاری خوشحالی کی دل خوش کن تصویر پیش کی جا رہی ہے جو خوش آئند ہے مگر زمینی حقائق اب بھی اس کے برعکس نظر آتے ہیں کیونکہ عام آدمی روزانہ کی بنیاد پر جو اشیاء خریدتا ہے ان کے نرخوں میں کوئی واضح کمی نظر نہیں آتی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر کسی حد تک قابو ضرور پایا گیا ہے لیکن بجلی اور گیس کی قیمتوں کا بڑھنا عام آدمی کے لیے مسلسل دردِ سر بنا ہوا ہے۔ جب تک عوام کو مہنگائی سے نجات نہیں ملتی، عام آدمی کی حالت نہیں سدھرتی، ایسے بیانات اور پالیسیاں وغیرہ محض طفل تسلیاں ہی نظر آئیں گے۔ جو دوست ممالک پاکستان کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں ان کی پیشکشوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ حکومتی دعوؤں کو عملی قالب میں ڈھالا جاسکے۔ یہ پاکستان کے لیے بہت اچھا موقع ہے کہ وہ دوست ممالک سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کاروں کے تعاون اور مدد سے اپنے معاشی مسائل حل کر لے۔ اگر حکومت اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے معیشت کو حقیقی طور پر استحکام کی جانب نہ لا سکی تو آگے چل کر ہمارے لیے مزید مسائل پیدا ہونے کا امکان ہے۔