کراچی (کامرس رپورٹر) سٹیٹ بنک آف پاکستان کی زری پالیسی کمیٹی نے شرح سود کو250 بی پی ایس کم کرکے 15 فیصد کر دیا۔ مرکزی بنک کے مطابق زری پالیسی کمیٹی کا کہنا تھا کہ پچھلے ایم پی ایس اجلاس کے بعد مہنگائی توقع سے زیادہ تیزی سے کم ہوئی ہے اور اکتوبر میں اپنے وسط مدتی ہدف کے قریب پہنچ گئی۔ سخت زری پالیسی موقف مہنگائی میں کمی کے رجحان کو برقرار رکھنے میں بدستور کردار ادا کر رہا ہے۔ غذائی مہنگائی میں تیزی سے کمی، تیل کی سازگار عالمی قیمتوں اور گیس ٹیرف اور پی ڈی ایل ریٹس میں متوقع ردّوبدل کی عدم موجودگی نے ارزانی کی رفتار بڑھا دی۔ ری پالیسی کمیٹی کا کہنا تھا کہ زری پالیسی موقف مہنگائی کو 5-7 فیصد ہدف کی حدود میں رکھتے ہوئے پائیدار بنیادوں پر قیمتوں کے استحکام کا مقصد حاصل کرنے کے لیے مناسب ہے۔ زری پالیسی موقف سے معاشی استحکام کو تقویت ملے گی اور پائیدار بنیاد پر معاشی نمو حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ تفصیلات کے مطابق زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے اپنے پیر کو ہونے والے اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 5 نومبر2024ء سے250 بی پی ایس کم کر کے 15 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ بڑھتی ہوئی بین الاقوامی سیاسی کشیدگی کی بنا پر تیل کی عالمی قیمتوں میں کافی اتار چڑھائو نظر آیا ہے تاہم دھاتوں اور زرعی مصنوعات کی قیمتیں نمایاں طور پر بڑھی ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر کمیٹی کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ موجودہ زری پالیسی موقف مہنگائی کو 5-7 فیصد ہدف کی حدود میں رکھتے ہوئے پائیدار بنیادوں پر قیمتوں کے استحکام کا مقصد حاصل کرنے کے لیے مناسب ہے۔ اس سے معاشی استحکام کو تقویت ملے گی اور پائیدار بنیاد پر معاشی نمو حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ تازہ ترین اعداد و شمار سے معاشی سرگرمی میں بتدریج اضافے کی عکاسی ہوئی۔ خریف کی اہم فصلوں کے ابتدائی تخمینے زری پالیسی کمیٹی کی پچھلی توقعات کے مقابلے میں بہتر ثابت ہوئے۔ چاول اور گنے کی پیداوار کے ہدف سے بلند تخمینوں نے مکئی اور کپاس کی پیداوار میں تخمین شدہ کمی کے اثرات کو مکمل طور پر زائل کر دیا ہے۔ مزید برآں صنعتی سرگرمی کی رفتار میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ خصوصاً، جولائی تا اگست 2024ء میں ٹیکسٹائل، غذا، گاڑیوں اور منسلک صنعتوں میں خاصی نمو ہوئی ہے اور آئندہ مہینوں کے دوران مذکورہ صنعتوں کی نمو کی رفتار میں مزید اضافے کی توقع ہے۔ اجناس کے پیداواری شعبوں کے بہتر امکانات اور مہنگائی کے کم ہوتے دبائو سے بھی خدمات کے شعبے کو مدد ملنے کی توقع ہے۔ بحیثیت مجموعی، زری پالیسی کمیٹی کو توقع ہے کہ مالی سال 25ء میں حقیقی جی ڈی پی کی نمو ابتدائی تخمینے سے بہتر اور 2.5 تا 3.5 فیصد کی حد میں رہے گی۔ مرکزی بنک کے اعلامیہ کے مطابق ستمبر 2024ء میں کرنٹ اکاؤنٹ مسلسل دوسرے ماہ سرپلس میں رہا، اس طرح مالی سال 25ء کی پہلی سہ ماہی میں مجموعی خسارہ کم ہو کر 98 ملین ڈالر رہ گیا۔ درآمدات میں خاصے اضافے کے باوجود کارکنوں کی بھاری ترسیلات اور زائد برآمدات نے خسارہ محدود رکھنے میں مدد دی۔ خسارے کے پہلو سے ستمبر میں بیرونی سرمایہ کاری میں معمولی سا اضافہ ہوا۔ اس پیشرفت کے علاوہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پہلی قسط کی وصولی سے سٹیٹ بنک کے زرِ مبادلہ ذخائر کو مزید اضافے سے 25 اکتوبر 2024ء کو 11.2 ارب ڈالر تک پہنچنے میں مدد ملی۔ جون 2025ء تک لگ بھگ 13 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ نان ٹیکس محاصل خاصے بڑھ گئے۔ اس کے برعکس ایف بی آر کی ٹیکس وصولی جولائی تا اکتوبر کے دوران ہدف سے کم رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مالی سال 25ء کا ٹیکس ہدف پورا کرنے کے لیے مستقبل میں نمایاں طور پر بلند نمو درکار ہو گی۔ زری پالیسی کمیٹی نے میکرو اکنامک استحکام کو سہارا دینے کے لیے مالیاتی یکجائی کے تسلسل کی اہمیت پر زور دیا اور ایسی مالیاتی اصلاحات کی ضرورت کا اعادہ کیا جن میں ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے اور سر کاری شعبے کے اداروں کا خسارہ کم کرنے پر توجہ دی گئی ہو۔ بنکوں کے لیے نجی شعبے کو قرض دینے کی اضافی گنجائش پیدا ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی سٹیٹ بنک کے سیالیت کے ادخال میں نمایاں کمی آئی جس کی عکاسی او ایم اوز کے بقایاسٹاک میں کمی سے ہوتی ہے۔ واجبات کے لحاظ سے ، ڈپازٹس ایم ٹوکی نمو کا اہم محرک بنے رہے۔ زری پالیسی کمیٹی کے مطابق مستقبل میں مالی حالات میں نرمی اور اقتصادی سرگرمیوں میں متوقع اضافے سے نجی شعبے کے قرضوں کی طلب میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ زری پالیسی کمیٹی نے نوٹ کیا کہ ان عوامل کے جاری رہنے سے آئندہ چند مہینوں میں مہنگائی میں مزید کمی آسکتی ہے۔ کمیٹی کا یہ تجزیہ بھی تھا کہ یہ منظر نامہ مشرق وسطیٰ کے تنازع میں کشیدگی، غذائی مہنگائی کے دبائو کے دوبارہ ابھرنے، سرکاری قیمتوں میں ایڈہاک ردّوبدل اور محصولات کی وصولی میں کمی کو پورا کرنے کے لیے ہنگامی ٹیکس اقدامات کے نفاذ جیسے خطرات سے مشروط ہے۔