گزشتہ سے پیوستہ.......................
امریکی انتظامیہ سے مذاکرات بھی ہوئے۔ امریکی دوستوں نے کافی حد تک حوصلہ افزائی بھی کی۔ فرینڈز آف پاکستان نے فاٹا کے لئے زبانی کلامی ٹرسٹ فنڈ کے قیام کے لئے عندیہ بھی دیا۔ وزیر خارجہ امریکہ ہلیری کلنٹن نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی‘ بلوچستان کے لئے بجلی کے منصوبوں کے لئے انٹرنیشنل انرجی کوآرڈینیٹر کے نئے عہدہ کے تقرری کی حمایت بھی کی۔ صدر پاکستان نے عالمی لیڈروں سے رسمی ملاقاتیں بھی کیں۔ کیری لوگر بل میں شرائط کے حوالہ سے درج ہے کہ نیوکلیئر پھیلائو کی روک تھام کے لئے ڈاکٹر قدیر تک رسائی حاصل کی جائے گی۔ امدادی رقوم کے استعمال کے لئے امریکی نگرانی ضروری ہو گی۔ ان تمام معاملات پر پاکستان نے اپنے تحفظات کا اظہار ضرور کیا۔ اصل میں امداد اور قرضے کے لئے شرائط امریکی سرکار ہی طے کرے گی۔ صدر زرداری نے اقوام متحدہ کے زیر انتظام امن فوج کے سلسلہ میں اہم اجلاس میں بھی شرکت کی۔ عالمی امن فوج میں پاکستان کا حصہ تقریباً گیارہ فیصد ہے۔ عالمی امن افواج میں اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک شامل ہیں جو دنیا میں کسی بھی جگہ خانہ جنگی کے دوران امن قائم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستانی دستوں کا معیار بہت ہی اعلیٰ درجہ کا رہا ہے‘ وہ مکمل طور پر اقوام متحدہ کے منشور پر عمل کرتے ہوئے اپنا کردار بہت ہی مؤثر انداز میں ادا کرتے ہیں اور ان خدمات کی وجہ سے فوج کو معقول آمدنی بھی ہوتی ہے۔ اس اجلاس کے فیصلوں سے میڈیا کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے اس سیشن میں سیکرٹری جنرل بانکی مون نے بھارت کی 13 سالہ طالبہ رتنا کا خصوصی تعارف بھی کرایا جو کہ آئندہ کی لیڈر شپ کے حوالہ سے تھا۔ بھارت اقوام متحدہ کے معاملات میں خاصی مؤثر گرفت رکھتا ہے۔ اس کی مسلسل کوشش ہے کہ وہ امریکہ کو پاکستان کے معاملات میں اپنے خطرات اور تشویش سے آگاہ رکھے ۔ اقوام متحدہ میں بھارتی لوگ اندرون خانہ تمام معاملات سے بھارتی لابی کو بتاتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کی خطہ میں امریکی مفادات کی وجہ سے اہمیت بہت بڑھ چکی ہے پھر پاکستان جو کچھ امریکی دوستوں کے لئے کر رہا ہے ویسا کرنا بھارت کے لئے بہت مشکل ہے۔ چین کے ساتھ حالیہ دنوں میں اختلاف بھی بھارت کو سفارتی تنہائی سے دوچار کر سکتا ہے۔ پھر چین کی عالمی تجارت بھی بھارت کے لئے باعث تشویش ہے۔ ماضی کے مقابلہ پر اب چین بھارت تعلقات بہت بہتر ہیں اور ان پر امریکہ کو تشویش بھی نہیں ہے۔ اس عالمی اجلاس میں لیبیا کے صدر قذافی کے چالیس سالہ دور میں پہلی دفعہ خطاب کا موقع آیا ہے۔ امریکہ نے اب لیبیا سے تعلقات بہت حد تک بہتر بنا لئے ہیں۔ عنقریب امریکہ لیبیا کی امداد بھی شروع کر سکتا ہے۔ اس وقت ایران کے علاوہ کوئی بھی مسلمان ملک اقوام متحدہ اور امریکی امداد سے محروم نہیں ہے۔ ایران کے جوہری منصوبوں نے خاصی تشویش پھیلائی۔ ایرانی سرکار نے اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کو مروجہ قوانین کے مطابق معاینہ کی اجازت دے کر امریکی سرکار سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ صدر زرداری کی اجلاس کے بعد نجی مصروفیات کا آغاز ہو چکا ہے۔ نجی مصروفیات میں دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا‘ کسی پسندیدہ جگہ پر جا کر چِل (Chill) کرنا اور مراقبہ کرنا کہ آنے والے دنوں میں امریکی دوستوں کی خواہشات کو بغیر کسی تنگی کے پورا کرنا۔ ان کی امریکہ یاترا تو خاصی کامیاب رہی ہے اس میں ہمارے سفیر حسین حقانی کی کاوش بہت تھی۔ آخری دنوں میں اقوام متحدہ میں ہمارے خصوصی نمائندہ بھی حرکت پذیر رہے۔ ہمارے وزیر خزانہ کے چہرے پر مسلسل تشویش رہی اس کی وجہ وہ اعداد و شمار تھے جو امریکی امداد اور قرض کے سلسلہ میں مختلف امریکی اداروں کی طرف سے مل رہے تھے اور ان میں خاص تضاد اور فرق نمایاں تھا۔ دوسری طرف ہمارے وزیر خارجہ خاصے متحرک رہے مگر ان کی خوش گفتاری بھارت کے ساتھ معاملہ فہمی میں ناکام ہی رہی۔ یہاں وزیر داخلہ اس سٹیج پر سب سے آخر میں آئے اور فوراً ہی چھا گئے۔ انہوں نے کمال کی ڈپلومیسی کی‘ صرف نیویارک پولیس نے ہی ان سے بدسلوکی کی جب ان کا چالان ہوا تو ان کا خیال تھا کہ وہ ان کے مرتبے کے مطابق سلوک کریں گے مگر دوسری طرف امریکی قانون تھا اگر ہماری نوکر شاہی پولیس ہوتی تو متعلقہ پولیس والا اب تک حاضر لائن ہو چکا ہوتا۔
امریکی انتظامیہ سے مذاکرات بھی ہوئے۔ امریکی دوستوں نے کافی حد تک حوصلہ افزائی بھی کی۔ فرینڈز آف پاکستان نے فاٹا کے لئے زبانی کلامی ٹرسٹ فنڈ کے قیام کے لئے عندیہ بھی دیا۔ وزیر خارجہ امریکہ ہلیری کلنٹن نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی‘ بلوچستان کے لئے بجلی کے منصوبوں کے لئے انٹرنیشنل انرجی کوآرڈینیٹر کے نئے عہدہ کے تقرری کی حمایت بھی کی۔ صدر پاکستان نے عالمی لیڈروں سے رسمی ملاقاتیں بھی کیں۔ کیری لوگر بل میں شرائط کے حوالہ سے درج ہے کہ نیوکلیئر پھیلائو کی روک تھام کے لئے ڈاکٹر قدیر تک رسائی حاصل کی جائے گی۔ امدادی رقوم کے استعمال کے لئے امریکی نگرانی ضروری ہو گی۔ ان تمام معاملات پر پاکستان نے اپنے تحفظات کا اظہار ضرور کیا۔ اصل میں امداد اور قرضے کے لئے شرائط امریکی سرکار ہی طے کرے گی۔ صدر زرداری نے اقوام متحدہ کے زیر انتظام امن فوج کے سلسلہ میں اہم اجلاس میں بھی شرکت کی۔ عالمی امن فوج میں پاکستان کا حصہ تقریباً گیارہ فیصد ہے۔ عالمی امن افواج میں اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک شامل ہیں جو دنیا میں کسی بھی جگہ خانہ جنگی کے دوران امن قائم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستانی دستوں کا معیار بہت ہی اعلیٰ درجہ کا رہا ہے‘ وہ مکمل طور پر اقوام متحدہ کے منشور پر عمل کرتے ہوئے اپنا کردار بہت ہی مؤثر انداز میں ادا کرتے ہیں اور ان خدمات کی وجہ سے فوج کو معقول آمدنی بھی ہوتی ہے۔ اس اجلاس کے فیصلوں سے میڈیا کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے اس سیشن میں سیکرٹری جنرل بانکی مون نے بھارت کی 13 سالہ طالبہ رتنا کا خصوصی تعارف بھی کرایا جو کہ آئندہ کی لیڈر شپ کے حوالہ سے تھا۔ بھارت اقوام متحدہ کے معاملات میں خاصی مؤثر گرفت رکھتا ہے۔ اس کی مسلسل کوشش ہے کہ وہ امریکہ کو پاکستان کے معاملات میں اپنے خطرات اور تشویش سے آگاہ رکھے ۔ اقوام متحدہ میں بھارتی لوگ اندرون خانہ تمام معاملات سے بھارتی لابی کو بتاتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کی خطہ میں امریکی مفادات کی وجہ سے اہمیت بہت بڑھ چکی ہے پھر پاکستان جو کچھ امریکی دوستوں کے لئے کر رہا ہے ویسا کرنا بھارت کے لئے بہت مشکل ہے۔ چین کے ساتھ حالیہ دنوں میں اختلاف بھی بھارت کو سفارتی تنہائی سے دوچار کر سکتا ہے۔ پھر چین کی عالمی تجارت بھی بھارت کے لئے باعث تشویش ہے۔ ماضی کے مقابلہ پر اب چین بھارت تعلقات بہت بہتر ہیں اور ان پر امریکہ کو تشویش بھی نہیں ہے۔ اس عالمی اجلاس میں لیبیا کے صدر قذافی کے چالیس سالہ دور میں پہلی دفعہ خطاب کا موقع آیا ہے۔ امریکہ نے اب لیبیا سے تعلقات بہت حد تک بہتر بنا لئے ہیں۔ عنقریب امریکہ لیبیا کی امداد بھی شروع کر سکتا ہے۔ اس وقت ایران کے علاوہ کوئی بھی مسلمان ملک اقوام متحدہ اور امریکی امداد سے محروم نہیں ہے۔ ایران کے جوہری منصوبوں نے خاصی تشویش پھیلائی۔ ایرانی سرکار نے اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کو مروجہ قوانین کے مطابق معاینہ کی اجازت دے کر امریکی سرکار سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ صدر زرداری کی اجلاس کے بعد نجی مصروفیات کا آغاز ہو چکا ہے۔ نجی مصروفیات میں دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا‘ کسی پسندیدہ جگہ پر جا کر چِل (Chill) کرنا اور مراقبہ کرنا کہ آنے والے دنوں میں امریکی دوستوں کی خواہشات کو بغیر کسی تنگی کے پورا کرنا۔ ان کی امریکہ یاترا تو خاصی کامیاب رہی ہے اس میں ہمارے سفیر حسین حقانی کی کاوش بہت تھی۔ آخری دنوں میں اقوام متحدہ میں ہمارے خصوصی نمائندہ بھی حرکت پذیر رہے۔ ہمارے وزیر خزانہ کے چہرے پر مسلسل تشویش رہی اس کی وجہ وہ اعداد و شمار تھے جو امریکی امداد اور قرض کے سلسلہ میں مختلف امریکی اداروں کی طرف سے مل رہے تھے اور ان میں خاص تضاد اور فرق نمایاں تھا۔ دوسری طرف ہمارے وزیر خارجہ خاصے متحرک رہے مگر ان کی خوش گفتاری بھارت کے ساتھ معاملہ فہمی میں ناکام ہی رہی۔ یہاں وزیر داخلہ اس سٹیج پر سب سے آخر میں آئے اور فوراً ہی چھا گئے۔ انہوں نے کمال کی ڈپلومیسی کی‘ صرف نیویارک پولیس نے ہی ان سے بدسلوکی کی جب ان کا چالان ہوا تو ان کا خیال تھا کہ وہ ان کے مرتبے کے مطابق سلوک کریں گے مگر دوسری طرف امریکی قانون تھا اگر ہماری نوکر شاہی پولیس ہوتی تو متعلقہ پولیس والا اب تک حاضر لائن ہو چکا ہوتا۔