بنگلہ دیش اور افغانستان کی جرأت رندانہ...... امریکی کروسیڈ کا توڑ کرنے کا یہی مناسب وقت ہے

Oct 05, 2010

سفیر یاؤ جنگ
بنگلہ دیش نے امریکی فرمائش پر نیٹو افواج کا حصہ بننے کیلئے افغانستان میں اپنی فوج بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔ بنگلہ دیشی اخبار ’’سماکل‘‘ کیمطابق بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے یہ بات حکمران عوامی لیگ کے ایک اجلاس میں بتائی‘ اس اجلاس میں عوامی لیگ کے بیشتر ارکان نے افغانستان میں فوج بھیجنے کی مخالفت کی جس سے اتفاق کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی وزیراعظم نے افغانستان میں فوج نہ بھجوانے کا فیصلہ کیا۔
دوسری جانب افغانستان نے بدنام زمانہ بلیک واٹر سمیت آٹھ غیرملکی سیکورٹی کمپنیوں پر پابندی عائد کردی ہے اور انکے زیر استعمال 400 کے قریب ہتھیار واپس لے لئے گئے ہیں۔ ان غیرملکی سیکورٹی کمپنیوں کو چار ماہ کے اندر اندر اپنے اپریشن مکمل کرکے سرگرمیاں بند کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان وحید عمر نے اس سلسلہ میں وزارت خارجہ میں ایک بریفنگ میں بتایا کہ افغانستان سے غیرملکی پرائیویٹ سیکورٹی کمپنیوں کے کردار کو ختم کرنے کا آغاز کردیا گیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے نائن الیون کے خودساختہ واقعہ کی آڑ میں دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر مسلم امہ کیخلاف اپنی کروسیڈ کا آغاز کیا تھا جس کا اعتراف خود انہوں نے اپنی ایک تقریر میں کیا اور جب انکی اس بات پر مسلم ممالک کا سخت ردعمل سامنے آیا تو انہوں نے معذرت کرلی مگر انہوں نے جس نیت کے تحت ہمارے خطہ میں اپنے مفادات کی جنگ شروع کی تھی‘ وہ اسی پر کاربند رہے۔ ان کا ہدف صرف مسلمان ممالک تھے‘ چنانچہ پہلے عراق اور پھر افغانستان پر دھاوا بول کر ہر چیز تہس نہس کر دی اور امریکی مفادات کو چیلنج کرنیوالی عراق اور افغانستان کی حکومتوں کا تختہ الٹا کر وہاں اپنے کٹھ پتلی حکمران مسلط کر دیئے گئے۔ عراق میں صدام حسین کو عبرت کا نشان بنایا گیا اور افغانستان میں طالبان حکمرانوں کو القاعدہ کا ساتھی قرار دے کر انہیں دہشت گردوں کی صف میں شامل کرلیا گیا۔
بش نے مسلم امہ پر غلبہ حاصل کرنے کیلئے اپنے مفادات کی جنگ کے جو مقاصد متعین کئے تھے‘ عراق میں نوری المالکی اور افغانستان میں حامد کرزئی ان مقاصد کی تکمیل کیلئے بش کے آلہ کار بنے کیونکہ ان کا اقتدار امریکی بیساکھیوں پر ہی کھڑا کیا گیا تھا جبکہ پاکستان میں ہمارے کمانڈو جرنیل مشرف امریکہ کی ایک ٹیلی فونک گیدڑ بھبکی پر ہی ڈھیر ہو گئے اور امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرکے مسلم امہ کیخلاف بش کی شروع کی گئی کروسیڈ میں اپنے اس فدویانہ کردار پر عمل پیرا ہو گئے جو ایک آزاد اور خودمختار ملک بالخصوص اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت کے ہرگز شایان شان نہیں تھا۔ چونکہ مشرف کے اقتدار کو بھی امریکی بیساکھیوں کی ضرورت تھی کہ وہ ایک منتخب عوامی جمہوری حکومت کو ماورائے آئین اقدام کے تحت ٹوپل کرکے اقتدار پر براجمان ہوئے تھے‘ اس لئے انہوں نے ملکی اور قومی غیرت کے تقاضوں کے منافی امریکی احکام کی تعمیل کو اپنا شعار بنالیا اور خود کو کٹھ پتلی کرزئی اور نوری المالکی کی صف میں شامل کرلیا۔
اگر بش کی شروع کردہ امریکی مفادات کی جنگ کا مقصد فی الواقع دہشت گردی کا خاتمہ ہوتا تو اس جنگ کا رخ بھارت اور اسرائیل کی جانب بھی کیا جاتا‘ جہاں مسلمانوں کیخلاف سرکاری سرپرستی میں دہشت گردی کرائی جاتی ہے مگر اسرائیل اور بھارت کا ہدف بھی چونکہ مسلم امہ ہے‘ اس لئے امریکہ نے انکی دہشت گردی سے نہ صرف صَرفِ نظر کیا بلکہ انکی معاونت سے مسلم امہ کیخلاف شیطانی اتحاد ثلاثہ کی بھی بنیاد رکھ دی جس کا واحد مقصد اور مشن مسلم امہ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا ہے۔ اسی مشن کے تحت دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں شروع کی گئی امریکی مفادات کی جنگ کا رخ صرف مسلم ممالک رہے ہیں‘ عراق اور افغانستان کو تہس نہس کرنے کے بعد امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے ایران اور پاکستان کو ٹارگٹ کیا اور جب ان امریکی بھارتی جارحانہ عزائم کا توڑ کرنے کیلئے چین نے پاکستان کی جانب دفاعی معاونت کا ہاتھ بڑھایا تو شیطانی اتحاد ثلاثہ کی جانب سے اسے بھی دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا جس کا برادر جمہوریہ چین کی جانب سے دوٹوک جواب ملنے پر امریکہ اور بھارت کے ہوش ٹھکانے آئے مگر مسلم ممالک کیخلاف انکے جارحانہ عزائم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس سلسلہ میں جنونی کروسیڈی بش نے دنیا پر امریکی غلبہ کے جو مقاصد متعین کئے تھے‘ انکے جانشین باراک اوبامہ نے بھی انہی مقاصد کو آگے بڑھانا شروع کر دیا اور اپنی ’’افپاک پالیسی‘‘ کے لیبل کے نیچے پاکستان کی براستہ افغانستان تباہی کا منصوبہ بنالیا جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اب امریکی ڈرون حملوں کے بعد نیٹو کے ہیلی کاپٹر بھی افغانستان سے پاکستان میں داخل ہو کر ہمارے علاقوں پر بمباری کا سلسلہ شروع کر چکے ہیں جو ہمارے خلاف کھلم کھلا اعلان جنگ کے مترادف ہے اور بدقسمتی سے ہمارے منتخب جمہوری حکمرانوں نے مشرف کی امریکہ نواز پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے اور پھر امریکہ کیلئے مزید بھی کچھ کرنے کا عزم ظاہر کرکے مسلم امہ کے درپے اس شیطانی اتحاد ثلاثہ کو اپنے جارحانہ عزائم کی تکمیل کا خود ہی موقع فراہم کیا ہے۔
یہ طرفہ تماشہ ہے کہ اب افغانستان کے امریکی کٹھ پتلی کرزئی تو خود کو اور افغانستان کو امریکی چنگل سے نکالنے کیلئے انگڑائی لیتے نظر آرہے ہیں جو افغانستان میں ڈھائے جانیوالے نیٹو امریکی افواج کے مظالم پر اکثر اوقات زار و قطار روتے بھی نظر آتے ہیں‘ جبکہ ہمارے منتخب جمہوری حکمرانوں نے امریکی تابعداری میں کرزئی کا فدویانہ کردار سنبھال لیا ہے جس کی جھلک امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی اور اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر حسین ہارون کے طرز عمل سے دیکھی جا سکتی ہے۔
یہ ہمارے حکمرانوں کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ امریکہ تو ہماری سالمیت پر حملہ آور ہو کر ہمارے خلاف کھلا اعلان جنگ کر چکا ہے اور نیٹو ہیلی کاپٹروں کے بعد اب وہ افغانستان کے راستے ہم پر زمینی حملہ کرنے کی منصوبہ بندی میں بھی مصروف ہے‘ مگر ہمارے عیش کوش اور امریکی فرمانبردار سفیر حسین حقانی ملک کے اسی دشمن کو یقین دلائے چلے جا رہے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے نیٹو افواج کو سپلائی بہت جلد بحال ہو جائیگی‘ یعنی پاکستان کے حکمران اس وطن عزیز کو ’’تورابورا‘‘ بنوانے کیلئے نیٹو افواج کو رسد بھی خود ہی فراہم کرینگے جس میں ہماری سالمیت کیخلاف استعمال کیا جانیوالا اسلحہ بارود بھی شامل ہو گا جبکہ جرنیلی آمر مشرف کے ساتھ مل کر داد عیش دینے والے ہمارے یو این سفیر حسین ہارون اپنے ہم منصب بھارتی سفارت کار پردیپ سنگھ کیلئے ریشہ ختمی ہو کر کشمیری عوام کی قربانیوں سے بھرپور جدوجہد کو بھی فراموش کئے بیٹھے ہیں اور اقوام متحدہ میں کشمیر ایشو کو اجاگر کرنے اور اس پر پاکستان کا مؤقف پیش کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے‘ ایسے نادان دوستوں کی موجودگی میں بھلا ہمارے مکار دشمنوں کو ہمیں مارنے کیلئے اور کس ہتھیار کی ضرورت ہے؟
اب جبکہ امریکہ نے ایک منظم سازش کے تحت برادر اسلامی ملک بنگلہ دیش کو جو 1971ء تک ہمارے ہی وجود کا حصہ تھا‘ براستہ افغانستان ہماری سالمیت کیخلاف استعمال کرنے کی ناکام کوشش کی ہے جس کا بنگلہ دیش کی جانب سے اسے ٹکا سا جواب ملا ہے تو کیا یہ اس بات کا بین ثبوت نہیں کہ اس خطہ میں امریکی مفادات کی جنگ درحقیقت مسلم امہ کیخلاف امریکی کروسیڈ ہی ہے‘ اس لئے اب مسلم امہ کو اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے امریکی کروسیڈ کے مقابلہ کیلئے خود کو متحد نہیں کرنا چاہیے؟ اس تناظر میں افغانستان نے امریکی بلیک واٹر سمیت آٹھ غیرملکی دہشت گرد تنظیموں پر پابندی عائد کرکے اور بنگلہ دیش نے اپنی افواج افغانستان بھجوانے کی امریکی فرمائش ماننے سے انکار کرکے ایک اہم پیش رفت کی ہے‘ اگر ہمارے حکمران بھی غیرت ملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو امریکی مفادات کی جنگ سے باہر نکال لیں‘ نیٹو افواج کا پاکستان کے ساتھ ہر قسم کا رابطہ منقطع کر دیں اور اپنی سرزمین کا کوئی بھی حصہ بشمول اپنے ایئربیسز امریکی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں تو امریکی نیٹو افواج کے ہوش ٹھکانے آجائیں اور انکے پاس واپسی کا رخ اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہے۔
اس تناظر میں قوم اپنے حکمرانوں سے متقاضی ہے کہ جو ہو چکا سو ہو چکا‘ اب امریکی تابعداری چھوڑ کر مسلم امہ کے اتحاد کیلئے صف بندی کی جائے اور چین کے ساتھ مل کر پاکستان اور اسلام دشمن شیطانی اتحاد ثلاثہ امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کے جارحانہ عزائم خاک میں ملائے جائیں‘ یہ یقیناً مسلم امہ کی بیداری کا وقت ہے‘ اگر اب بھی ہم خواب خرگوش رہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ…؎
ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
وزیراعظم ملکی مفاد میں دائمی پالیسیاں ترتیب دیں
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ 13 اکتوبر کا دن بھی خیریت سے گزر جائے گا حکومت آئینی مدت پوری کرے گی سازشی عناصر کو پھر مایوسی ہو گی‘ آرمی چیف سے ملاقاتیں محض فوٹو سیشن کیلئے نہیں۔
فوٹو سیشن کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ سب کی بات ایک ہے ہم میں کوئی اختلافی مسئلہ نہیں لیکن اس کے ساتھ چہروں کے تاثرات بھی تو کچھ بتا رہے ہوتے ہیں کہ آدمی محض مجبوری کے باعث حاضری لگوانے آیا ہے یا کسی مسئلہ کو حل کرنے کیلئے۔
13 اکتوبر پہلے بھی آئے اور گزر گئے اب بھی گزر جائے گا لیکن کیا حکومت ایسے ہی دن گزارتی رہے گی وہ دائمی پالیسیاں ترتیب کیوں نہیں دیتی؟ مسائل کا حل کیوں نہیں کرتی؟ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر کیوں کاربند ہے؟ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے اس کا حق ہے۔ لیکن قانون کی پاسداری تو لازم ہے کیا عوام نے آپ کو مینڈیٹ عدلیہ سے تصادم اور فوٹو سیشن کیلئے دیا تھا۔
مہنگائی پہ کنٹرول اور خود کشیوں کو روکنا یہ عوام کا کام تو نہیں۔ انہوں نے تو آپ کو ان چیزوں پر کنٹرول کرنے کیلئے ایوان میں پہنچایا تھا‘ اب بھوک سے تنگ ہو کر خود کشیاں کرنے والوں کے ذمہ دار تو آپ ہی ہیں یہ تو روز محشر ہی کو پتہ چلے گا۔ جب آپ اکیلے ہی جبار و قہار کی عدالت میں پیش ہوں گے۔ نہ تو وہاں فوٹو سیشن والے کام آئیں گے نہ آپ کا یہ کہنا کہ میں سید عبدالقادر جیلانیؒ کی اولاد ہوں‘ اس لئے ڈریں اس وقت سے جب خود کشیاں کرنے والوں کے بارے میں آپکو عدالت خداوندی میں جواب دینا پڑے گا۔ ملک کو بہتر انداز میں چلانے کیلئے دیرپا پالیسیاں ترتیب دیں عدلیہ کا احترام کریں اور ملکی معاملات کو بہتر انداز سے حل کریں یہی آپکے اور آپکی جماعت کے مفاد میں بہتر ہے۔
کالاباغ ڈیم کا نام بے شک زرداری، باچا خان ڈیم رکھ لیں
پنجاب اسمبلی کے آج شروع ہونیوالے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر چودھری ظہیرالدین کی طرف سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں قرارداد پیش کی جائے گی۔ قومی مفادات پر مبنی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے قرارداد یقیناً اتفاق رائے سے منظور ہو جائے گی۔ سندھ اور خیبر پی کے اسمبلیوں سے ماضی میں کالاباغ کی تعمیر کے خلاف آوازیں اٹھتی رہی ہیں لیکن سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث کالاباغ ڈیم کے بہت سے مخالفین کی سوچ میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔ خود پیپلز پارٹی کا ایک اہم اور بااثر حلقہ بھی تعمیر کی بات کرتا ہے۔ ان میں وزیراعظم بھی شامل ہیں۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر تو تعمیر کے حق میں باقاعدہ ایک مہم کا آغاز کر چکے ہیں۔ ان حالات میں حکومت کی طرف سے کالاباغ ڈیم پر اتفاق رائے پیدا کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اگر کسی طرف سے قوم کے عظیم ترین مفاد کے حامل منصوبے کی مخالفت کی جاتی ہے تو یہ ہٹ دھرمی ہے۔ حکومت کو اس کی مطلق پروا نہیں کرنی چاہئے۔ کیا باقی ڈیموں کی تعمیر پر سب صوبوں سے پوچھا گیا تھا؟ کالاباغ ڈیم ہر صورت بننا چاہئے بجلی اور پانی کی کمی دور کرنے اور بارشوں، سیلاب کے وافر پانی کو سمیٹنے کے لئے کالاباغ ڈیم کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اس کی تعمیر پر کافی کام بھی ہو چکا ہے، دیگر ڈیم بھی بننا چاہئے لیکن یہ آسانی سے اور کم مدت میں بن سکتا ہے۔ اسکے نام پر نہ جایا جائے۔ اس کا نام پاکستان ڈیم رکھ دیں زرداری ڈیم ولی ڈیم یا باچا خان ڈیم رکھ دیا جائے اس پر کسی کو اعتراض نہیں۔ خدارا! یہ ڈیم بنائیے اور پاکستان بچائیے۔
مزیدخبریں