صدر آصف علی زرداری کے حوالے سے سوئس حکام کو خط لکھنے کا معاملہ ایک پیچیدہ موڑ پر پہنچ چکا ہے، حکومت کے مو¿قف میں یہ بڑی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے کہ وہ سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے بھیجے گئے خط کا نیا مسودہ عدالت عظمیٰ میں پیش کرنے پر آمادہ ہوچکی ہے۔ کہا تو یہ جا رہا تھا کہ جب تک آصف علی زرداری صدر ہیں، انہیں استثنیٰ حاصل ہے، اس لئے سوئس حکام کو خط لکھنا آئین سے غداری ہوگی۔
سوئس حکام کو سابق اٹارنی جنرل کی طرف سے لکھا گیا خط واپس لینے کے حکومتی فیصلے سے ایک اور وزیراعظم کی گھر واپسی کا خطرہ بظاہر ٹل گیا ہے اور ملک میں چھائی سیاسی دھند بڑی حد تک کم پڑ گئی ہے، اب وزیر قانون سے عوام نے یہ توقعات وابستہ کرلی ہیں کہ وہ صدر مملکت، وزیراعظم اور اتحادیوں کے مابین مشاورت کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی درمیانی راستہ تلاش کر ہی لیں گے جس سے عدالت کا وقار بھی قائم رہے گا اور قانون کی بالادستی بھی برقرار رہے گی اور اس طرح حکومت کی لاج بھی رہ جائے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ پیپلزپارٹی ہی وہ واحد جماعت ہے جسے ملک کی دیگر جماعتوں کی نسبت کڑے احتساب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف ہر دن احتساب کا ہوتا ہے، احتساب ایک اچھی روایت ہے مگر اس کا اطلاق تمام جماعتوں اور ان کے لیڈروں پر بلاتخصیص ہونا چاہئے۔ حالانکہ پیپلزپارٹی ہی وہ جماعت ہے جس نے پاکستان کو باقاعدہ آئین سے آراستہ کیا‘ بگاڑنے والوں نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا تو اسی پارٹی نے اس کی اصل شکل بحال کرنے کے لئے صعوبتیں برداشت کیں اور جس نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔اسی پیپلز پارٹی کو روز اول سے نشانہ تنقید بنایا جا رہا ہے اس کے اچھے کاموں کو بھی برائی کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ کاش! اسے سمجھنے والے اس کے حق میں نعرہ نہیں تو ایک آدھ آوازہ ہی بلند کر دیں۔
پچھلے 4 سال سے جاری بلیم گیم میں نقصان صرف غریب عوام کا ہو رہا ہے اگر یہ کہا جائے کہ چور اپنی چوری چھپانے کے لئے شور مچا رہے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
احتساب صرف پیپلز پارٹی ہی کا کیوں؟
Oct 05, 2012