الیکشن کا ٹلنا، ٹل گیا ہے، اب الیکشن ہو کے رہیں گے۔ عوام تبدیلی کی تمنا اور حکمران اگلے پنج سالہ حکمرانی کے بندوبست میں مصروف ہیں۔ سیاسی صف بندی اور جوڑ توڑ زور وں پر ہے اور یہی جماعتی صف بندی اور انتخابی محاذ بندی اگلے الیکشن کے نتائج کی غماز ہے۔ عوام خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ عدالتی دباﺅ اور کارروائی رنگ لائے گی؟ صدر زرداری خط نہ لکھنے کے جرم میں کتنے وزیر اعظم قربان کریں گے؟ نیز زرداری صدارت چھوڑیں گے یا سیاسی سرگرمیاں؟ اگر زرداری صاحب صدارت رکھتے اور پی پی پی کی مشترکہ سربراہی co-chair personshipچھوڑتے ہیں تو اس کا امکانی نتیجہ تھا کہ شاید اگلا وزیراعظم پی پی پی کا نہ ہونے کے باعث سوئس حکام کو خط لکھتا اور صدر پر پارلیمان میں عوام اعتماد کی تحریک چلنے کے امکانات روشن ہوتے‘ اگر زرداری صدارت چھوڑتے تو ایک دن بھی پاکستان میں رہنا مشکل ہوتا لہٰذا زرداری الطاف بھائی کی طرح لندن اور دوبئی بیٹھ کر سیاست بازی کرتے۔ دریں صورت پاکستان میں اگلا الیکشن زرداری کی زیر نگرانی نہ ہوتا اور یہ امر بھی عوام کیلئے اچھی بھلی خوش فہمی کا باعث رہتا۔ اقتدار زرداری کی مجبوری ہے۔ تقریباً یہی کیفیت حملہ آور امریکہ و اتحادی ممالک کی ہے کہ وہ پاکستان کی سیاسی و انتخابی حکمرانی ”غیر پسندیدہ اور غیر مفاہمتی“ سیاست دانوں اور جماعتوں کے سپرد نہیں کر سکتے۔ فی الحال فوج اور روایتی اسٹیبلشمنٹ خفیہ ایجنسیاں بشمول ISI امریکی عدالتی اور لاپتہ افراد کے باعث شدید ملکی و براہ راست غیر ملکی دباﺅ میں ہے۔ اگلے الیکشن میں تین حتمی حلیف بظاہر حریف ہیں یعنی امریکہ، زرداری اور نواز شریف۔ امریکہ نے یو این ڈی پی کے ذریعے پاکستان میں الیکشن کا انعقاد اور اخراجات اٹھانا ہیں۔ نئے الیکشن کمشنر پرانے جیالے عہدیدار ہیں اور فی الحال نواز شریف یعنی ن لیگ کے نامزد، زرداری اور پی پی کے متفقہ الیکشن کمشنر ہیںتاکہ نتائج پر بڑی پارٹیوں کو اعتراض نہ رہے۔کیا امریکہ الیکشن کے ذریعے بڑی تبدیل کا متحمل ہو سکتا ہے؟ منجدہار میں قیادت کی تبدیلی سب کچھ ملیا میٹ بھی کر سکتی ہے نیز امریکہ الیکشن کے ذریعے دو قدم مزید آگے بڑھے گا، پیچھے نہیں ہٹے گا۔ لہٰذا زرداری اور امریکہ یکجان، دو قالب بنے ہوئے ہیں۔ زرداری کی عملی سیاست میں آمد ڈرامائی ہے لہٰذا جانا بھی ڈرامے سے کم نہیں ہو گا امریکہ و اتحادی ممالک کیلئے زرداری کی خدمات بینظیر اور جنرل پرویز مشرف سے زیادہ ہیں۔ بھٹو اور بے نظیر نے عالمی برادری کیلئے زمین ہموار کی۔ پرویز مشرف نے بیج بوئے اور جب کونپلیں پھوٹیں تو عالمی برادری کے اہداف کو تناور درخت بنانے میں زرداری نے کردار ادا کیا۔ یہی سبب ہے کہ امریکہ و اتحادی عالمی برادری نے زرداری کیلئے بے نظیر اور پرویز مشرف کی قربانی دی۔ زرداری اور پرویز مشرف اکٹھے چل سکتے تھے، لہٰذا تاحال مفید اور متحرک ہیں جبکہ زرداری اور بے نظیر کے اکٹھے چلنے کا زیرو فیصد بھی امکان نہیں لہٰذا زرداری کی اہمیت و افادیت دو چند تھی اور ہے اگلے الیکشن کا ہدف حسب سابق زرداری راج میں سب کو حصہ بقدر جثہ زندہ رکھنا ہے۔ علاوہ ازیں پنجاب میں پی پی پی یا اس کی حلیف پارٹی کی حکومت بنانا اور لسانی تقسیم کرنا فی الحال عالمی برادری اور زرداری کیلئے حقیقی غیر مفاہمی پارٹی ن لیگ ہے جو زرداری یعنی پی پی پی اور پرویز مشرف کے چھوڑے ہوئے نام نہاد سابق ساتھیوں سے بھری پڑی ہے۔ لہٰذا ن لیگ کی قیادت کے پاس نظریاتی مسلم لیگی مولانا معین الدین لکھوی کے بیٹے ڈاکٹر عظیم الدین زاہد‘ چودھری محمد حسین چٹھہ کے بیٹے چودھری محمد نعیم چٹھہ‘ شرقپور شریف کے سجادہ نشیں خلیل شرقپوری وغیرہ سے ملاقات کیلئے بھی وقت نہیں ہے۔ ن لیگ کا المیہ 1988ءکے الیکشن کی طرح مسلم لیگ کی سیٹوں کی تاخیری تقسیم بن کر رہ جائے گا۔ ن لیگ دوست اور دشمن کی شناخت میں زیرو ہے۔امریکہ اور زرداری کا رشتہ اٹوٹ ہے۔ امریکہ نے آزاد عدلیہ کی بحالی کے بعد زرداری کا متبادل ڈھونڈنے کیلئے اعلانیہ چھ ماہ لئے تھے۔ مذکورہ چھ ماہ میں زرداری بہترین خادم ثابت ہوئے لہٰذا زرداری کا جانا ٹل گیا۔ امریکہ نے میمو گیٹ سکینڈل میں زرداری کو بچایا نیز جب زرداری بیگ سمیت دوبئی چلے گئے تو دوبئی کے امریکی ہسپتال میں تین دن رکھ کر دوبارہ راہ ہموار کی اور اب زرداری کی نگرانی الیکشن میں ساری سیاسی جماعتیں بشمول ن لیگ اور پی ٹی آئی تیار ہیں۔ الیکشن میں عام خرید و فروخت کیلئے CBR نے اعلان کیا ہے کہ کوئی بھی پاکستانی پانچ کھرب روپیہ پاکستان میں لاسکتا ہے جس کے بارے میں تفتیش اور تحقیقات نہیں کی جائیںگی یہ پیسہ میر جعفر و میر صادق کے پاس کہاں سے آیا‘ کس نے اور کہاں لگایا‘ یہ سب آئین اور قانون سے ماوراءہو گا جبکہ یہ حقیقت ہے کہ سابق الیکشن کمشنر نے 2008ءکے پچھلے الیکشن میں 42 فیصد جعلی ووٹ کا اعتراف کیا۔ دریں صورت امریکہ و اتحادی برادری زرداری کا متبادل ڈھونڈنے میں تاحال ناکام رہی ہے لہٰذا الیکشن سے تبدیلی کا امکان کم ہے اور آئندہ الیکشن کے نتائج بھٹو کی زیر نگرانی ہونے والے 1977ءکے نتائج جیسے ہوں گے جو بالآخر تبدیلی کیلئے تحریک اور انقلاب کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔