2013ءکے انتخابات میں گجرات کے چوہدری لاہور کے شریف لاڑکانہ کے بھٹو اور میانوالی کے خان سیاسی ٹارگٹ ہوں گے۔ ان شہروں میں کانٹے دار انتخابی معرکے دیکھنے کو ملیں گے۔ گجرات چوہدریوں کا سیاسی قلعہ ہے جس کی بنیادوں میں چوہدری ظہور الٰہی شہید کی محنت اور خون شامل ہے۔ پی پی پی بھٹو شہید اور بی بی شہید کی قیادت میں کئی بار اس قلعہ میں شگاف ڈالنے میں کامیاب رہی۔ 2008ءکے انتخابات میں چوہدری شجاعت صاحب کے بقول اگر جنرل پرویز مشرف ”دھکا“ نہ لگاتے تو وہ کبھی انتخاب نہ ہارتے۔ ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق جنرل پرویز مشرف محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اس قدر خوف زدہ ہوگئے کہ انہوں نے انتخابات کے دوران مسلم لیگ (ق) کو لاوارث چھوڑ دیا۔فیوڈل جمہوری سیاست کی وجہ سے سیاسی خاندان مضبوط اور سیاسی جماعتیں کمزور ہوئی ہیں۔ پاکستان میں موجودہ جمہوری ماڈل کو خاندانی جمہوریت بھی کہا جاسکتا ہے جس میں عوام کا کردار صرف اس قدر ہے کہ وہ سیاسی خاندانوں کو ووٹ ڈالیں اور پھر پانچ سال اپنے مقدر کو کوستے رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جناب آصف علی زرداری کامیاب شاطر سیاستدان ہیں۔ ریاست کا اقتدار ہاتھ میں لے کر سیاسی شطرنج کے مہرے آگے پیچھے کرنا شاطری نہیں ہے۔
نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزہ تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
سیاست کا کامیاب کھلاڑی کون ہے اس کا فیصلہ عوام نے پولنگ ڈے پر کرنا ہے۔ جناب میاں نواز شریف بڑی کامیابی اور ہوشیاری کے ساتھ زرداری صاحب کے ووٹ بنک پر نقب زنی کررہے ہیں انہوں نے گجرات پر سیاسی و انتخابی حملے کرکے دو با اثر روایتی سیاسی خاندانوں کے اہم افراد کو توڑ لیا۔ پاکستان کی سیاست جوڑ توڑ کی مکروہ کہانی ہی تو ہے۔ جناب آصف علی زرداری نے جب یوٹرن لے کر مسلم لیگ (ق) کو اقتدار کا حصہ بنایا اور یہ شرط تسلیم کرلی کہ آئیندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف پی پی پی کے اُمیدوار کھڑے نہیں کیے جائیں گے اور خصوصی عنایت کے طور پر گجرات میں چوہدری شجاعت حسین صاحب کے مقابلے میں بھی پی پی پی کا کوئی اُمیدوار کھڑا نہیں کیا جائے گا۔ ”نظریہ ضرورت“ کے تحت کیے گئے اس فیصلے کے بعد گجرات کی روایتی سیاست متاثر ہوئی جس سے مسلم لیگ (ن) نے فائدہ اُٹھایا۔ پہلے گل خاندان کے ایک سابق ایم این اے نواب زادہ مظہر علی خان اور ان کے بھائی سابق ایم پی اے مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے جبکہ نواب زادہ غضنفر گل انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اعلانیہ یا خفیہ طور پر آن ملیں گے اور قومی اسمبلی کی نشست پر خاندان کی اجارہ داری قائم رکھنے کی کوشش کریں گے۔ ابھی گجرات میں گل خاندان اور مسلم لیگ (ن) کے ”سیاسی نکاح“ کے چرچے جاری تھے کہ جناب نواز شریف نے گجرات پر ایک اور حملہ کرکے سروس گروپ کے جناب احمد سعید کو مسلم لیگ (ن) میں شامل کرکے گجرات کے چوہدریوں کو پریشان کردیا۔ جناب احمد سعید اعوان ہرچند کہ گزشتہ کئی سالوں سے عملی سیاست سے باہر ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ چوہدری احمد مختار کی انتخابی کامیابی ان کے فعال اور سرگرم کردار اور سرپرستی ہی کی مرہون منت رہی ہے۔ چوہدری احمد سعید 1970ءمیں ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ چوہدری احمد سعید نے چوہدری شجاعت حسین کے خلاف انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ چوہدری احمد مختار صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کی قربت کے باوجود گجرات میں اپنے بھائی کی مخالفت نہیں کرسکیں گے۔ گجرات کے دو بڑے سیاسی خاندانوں کے اہم افراد کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے بعد مسلم لیگ کی انتخابی طاقت میں اضافہ ہوا ہے جس کا ادراک ”سیاسی اندھے“ نہیں کرسکتے۔چوہدری احمد سعید اور نواب زادہ مظہر علی خان کے فیصلے سے پنجاب کی سیاست پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔2013ءکے انتخابات پاکستان کی تاریخ کے پر اسرار اور ”گجے“ ثابت ہوں گے۔ جب تک سیاست دو جماعتی تھی انتخابی فیصلہ دیوار پر لکھا نظر آتا تھا اب سیاست سہہ جماعتی ہوچکی ہے لہذا انتخابی نتائج کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تحریک انصاف کے سونامی نے انتخابی تاریخ میں پہلی بار دو بڑی سیاسی جماعتوں کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ بہت سے نامی گرامی سیاستدان آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے انتخابی میدان میں اُترنے کی تیاریاں کررہے ہیں ان کے خیال میں اگلے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنا با اثر خاندانی اُمیدواروں کے لیے مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔ انتہائی قابل اعتماد ذرائع کے مطابق جناب فخر امام اور بیگم عابدہ حسین نے آزاد اُمیدوار کے طور پر انتخاب لڑنے کے لیے صدر پاکستان آصف علی زرداری کی آشیرباد حاصل کرلی ہے۔ دونوں سیاسی رہنما کوشش کریں گے کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ان کے مقابلے میں اپنے اُمیدوار کھڑے نہ کریں۔ جو سیاسی جماعت اکثریت حاصل کرلے گی آزاد اُمیدوار اسی جماعت کا حصہ بن جائیں گے۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی سیاسی افراتفری اور نفسا نفسی کے مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ آئی آر آئی کے سروے کے مطابق پی پی پی کی مقبولیت کا گراف افسوسناک اور پریشان کن حد تک گررہاہے۔ اگر جناب آصف علی زرداری پی پی پی کی مقبولیت میں اضافہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے تو مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے دفتروں کے باہر پارٹی ٹکٹ لینے والے اُمیدواروں کی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملیں گی اور چوہدری شجاعت حسین کے لیے بھی اپنی سیٹ بچانا مشکل ہوجائے گا۔
وہی قافلے وہی راستے وہی سانحے وہی حادثے
وہی امتحاں وہی کربلا ترے سامنے مرے سامنے