اگر اس دنیا میں یا انسانوں کی جبلت میں فساد نہ ہوتا تو امن کا تصور پیدا ہوتا نہ اس کی ضرورت محسوس ہوتی۔ انسان چاہتا ہے کہ امن کے ساتھ جئے اور جینے دے لیکن ان میں سے ایسے بھی نکل آتے ہیں جن میں شیطنت نے گھر کر لیا ہوتا ہے۔ آخر شیطان نے بھی راندہ درگاہ ہوتے وقت کچھ اختیارات مانگے تھے، جو اسے دئیے گئے اور آج پوری دنیا کے رگ و پے میں وہ سرایت کئے ہوئے ہے۔ وہ موقع پاتے ہی حملہ کرتا ہے اور انسانی ذہن میں ایسا ہیجان پیدا کر دیتا ہے کہ دوران خون میں تیزی اور سفرائی مادوں میں سونامی کا سا سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ انسان دراصل تفوق حاصل کرنے کے جنون میں حد سے گزرتا ہے تو امن کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ایسے ادارے ایسے تھنک ٹینکس بہت کم ہیں، جو انسانیت کو مسلسل یہ یاد دلائیں کہ اے انسانو! تمہارا باپ ایک تمہاری ماں ایک پھر اتنے سگے ہونے کے باوجود کیوں ایک دوسرے سے سوتیلوں کا سا سلوک کرتے ہو۔ اگر یہ سبق ایک تسلسل سے مدلل انداز میں دیا جاتا رہے، تو سارے انسان مل جل کر رہیں۔ وہ اپنے رنگوں، مزاجوں اور دنیوی حیثیتوں کو اپنے ہی گھرانے کا تنوع سمجھیں۔ ہمارے انتہائی عالم لوگ بہت زیادہ ژرف گاہی سے کام لے کر کام خراب کرتے ہیں۔ سادگی سے عام انسانوں کو گلے لگا کر بات کی جائے تو یہ جو بظاہر اختلافات ہیں، بقول استاذ ذوق
گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوق دنیا کو ہے زیب اختلاف سے
اگر جملہ تعصبات اور اختلافات کو تھوڑی دیر کے لئے اٹھا رکھا جائے تو دنیا بھر کے باشعور افراد پر یہ نکتہ کھل جائے کہ یہ توحید، یعنی ایک خدا جو اس کائنات کو نہایت توازن کے ساتھ چلا رہا ہے۔ آخر اس ایک ہونے میں کیا انسانوں کے ایک ہونے کی ہدایت پوشیدہ نہیں اور کون ہے جو ایک خدا کو نہیں مانتا آخر ایک نقطہ تو ایسا ہے کہ جس پر انسانوں کو یکجا کیا جا سکتا ہے۔ البتہ ہر انسان خدا کو اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے دیکھتا اور پوجتا ہے۔ یہ ایک اچھا خاصا علمی و فلسفیانہ مبحث ہے جس پر دنیا بھر کے اہل دانش اگر سوچ بچار میں مصروف کر دئیے جائیں تو بھی امن کے قیام میں کافی تعاون حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ انسان جب سے زیادہ ذہین و فطین ہوا ہے اس کے باعث بھی دوریاں بڑھ گئی ہیں بہرصورت اس جملہ¿ معترضہ کے بعد ہم پھر سے یہ کہیں گے کہ اللہ نے دنیا ایک بنائی، ملک نہیں بنائے۔ اگر اس دنیا کو ایک ملک بنا دیا جائے اور Cosmology کو ترویج دیا جائے تو یہ جو گلوبل ویلج کا کھوکھلا نعرہ لگایا جاتا ہے اس میں بھی جان پڑ جائے۔ دنیا پر ایک دور آیا تھا جب ملیریا نے کوئی گوشہ خالی نہیں چھوڑا تھا اور لاتعداد انسان کونین کی دریافت نہ ہونے کے باعث لقمہ اجل بن گئے تھے۔ تب ہر ملک و ملت میں بہت کم انسان باقی رہ گئے تھے تو حاکموں نے ایک مشترکہ میٹنگ روم میں بلائی تھی اور اس بات پر اتفاق ہو گیا تھا کہ آپس کی جنگوں پر مکمل ایمبارگو لگا دیا جائے اور زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کئے جائیں تاکہ دنیا جہاں اکا دکا انسان نظر آنے لگے ہیں، وہاں اتنا ہو سکے کہ وہ ایک دوسرے کے گلے لگنا چاہیں تو قحط الرجال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ عالمی امن میں آج اگر کوئی برا نہ مانے تو مذہب آڑے آیا ہوا ہے اور وہ دنیا جو لادین ہونے کی دعویدار تھی اس پر اتر آئی وگرنہ نائن الیون سے پہلے یہ دنیا پرامن تھی اور اس وقت بھی جب دنیا میں دو بڑی طاقتیں موجود تھیں۔ اگر یہ وجہ نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ صرف مسلمان ممالک ہی کو نشانہ بنایا گیا اور لاکھوں مسلمان شہید کر دئیے گئے اور یہ سلسلہ تھما نہیں جاری ہے۔ صرف ان مسلمان ملکوں کو نشانہ بنایا گیا جہاں کی آبادی میں حکمرانی میں قدرے روح محمد موجود تھی، صرف روضہ محمد کی موجودگی سے کسی کو کوئی تعرض نہیں، تعرض فکرِ محمدی سے ہے۔ ہم اس چھوٹی سی دنیا کو ایسی جگہ بنانے ہی میں امن عالم کا راز پوشیدہ سمجھتے ہیں کہ ہر قوم ہر ملت اپنے دین و مذہب پر کاربند رہے۔ اسے اس سلسلے میں ہرگز پابند کیا جائے نہ روکا جائے اگر کوئی اپنی مرضی سے ڈائیلاگ کے ذریعے علم کے ذریعے اپنا عقیدہ بدلتا ہے، تو بے شک بدلے، لیکن جبر کو اس دنیا سے خارج کیا جائے۔ جیسے اب ساری دنیا امریکہ سے ڈرون حملوں کو روکنے کے لئے کہہ رہی ہے اور عالمی قانون کا حوالہ بھی دے رہی ہے، خود اس کے اپنے شعور رکھنے والے شہری بھی منع کر رہے ہیں لیکن وہ بضد ہے کہ چاہے اس دنیا میں آکسیجن رک جائے اس کے ڈرون حملے نہیں بند ہو سکتے۔ کیا عالمی امن کے آنے میں یہ ہٹ دھرمی دنیا بھر کے امن پسند ممالک کو روکاوٹ محسوس نہیں ہوتی اور کیا وہ یکمشت ہو کر اقوام متحدہ کو حقیقی اقوام متحدہ نہیں بنا سکتے۔ پاکستان بھارت کے خلاف جنگ نہیں لڑنا چاہتا۔ پھر کیوں اسے شہہ دی جا رہی ہے کہ وہ پاکستان کی سرحدوں سے طیارے جوڑ کر مشقیں کرے اور اپنے خطرناک ترین طیاروں کی نمائش کرے۔ پاکستان کو بھارت سے خسارے کی تجارت پر مجبور کیا جائے، دباﺅ ڈالا جائے کہ پیوٹن پاکستان نہ آنے پائے۔ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا جائے کیا دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے یہ طور طریقے کارآمد ثابت ہوں گے۔ مذہبی فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لئے پاکستان میں تمام ایجنسیوں کو لینڈ کر دیا گیا ہے کیا اس طرح امن قائم ہو گا۔ دنیا ہوش میں آئے، دنیا بھر کا تھنک ٹینک متحرک ہو۔ اقوام متحدہ پر دباﺅ ڈالا جائے کہ وہ امریکہ کو بین الاقوامی قوانین توڑنے کی اجازت نہ دے اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر اس ادارے کی تجدید کی جائے۔ دنیا بھر کی قوموں میں محبت، تعلق، آشتی اور مل جل کر رہنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ یہ اسلحہ سازی میں سب سے بڑا ہاتھ اور اس کی خرید و فروخت میں عمل دخل کس کا ہے۔ امریکہ اس وقت کی سپر پاور ہے۔ وہ پاور پر اتنی توجہ نہ دے جتنی کہ عالمی امن پر اور کوشش کرے کہ انسانیت کو بچائے قطع نظر اس کے کہ کوئی کس مذہب، قوم اور ملت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں مختلف قوموں کے درمیان دیرینہ سیاسی تنازعات موجود ہیں جو درحقیقت دہشت گردی کا بھی سبب بنتے ہیں۔ وہ ان مسائل کو حل کرے، اقوام متحدہ کو اپنے گھر کی باندی بنانے کے بجائے پوری دنیا کے لئے منصف بنائے اور اسے طاقتور بنائے تاکہ یہ فلسطین، کشمیر اور ایک نام نہاد دہشت گردی کا قلع قمع کر سکے۔ اگر عالمی امن قائم نہ کیا گیا اور امریکہ نے اپنے ایٹمی انباروں کو تباہ کرنے سے آغاز نہ کیا تو دنیا قیامت سے پہلے قیامت کی زد میں آ سکتی ہے۔ برطانیہ فرانس اٹلی اور دیگر اسلامی غیر اسلامی ممالک بھی بلاتفریق مذہب اس کار خیر میں حصہ لیں یہ دنیا جنت بن جائے گا۔