جنرل اشفاق پرویز کیانی طے شدہ شیڈول کے مطابق اسلام آباد سے ماسکو پہنچ گئے ہیں۔ جہاں وہ روس کے اعلیٰ ترین فوجی حکام کے علاوہ روس کے صدر‘ وزیراعظم‘ وزیر دفاع اور دیگر سینئر حکومتی عہدیداروں سے بھی اپنے چار روزہ دورہ کے دوران باہمی دلچسپی کے مختلف موضوعات پر گفتگو کریں گے۔ اگرچہ پاکستان اور روس کے درمیان باہمی دلچسپی کے معاملات و موضوعات کے بارے میں سرکاری سطح پر اسلام آباد یا ماسکو سے کوئی وضاحت جاری نہیں کی گئی۔ لیکن حکمت اور دانائی کا تقاضا ہے کہ اہل نظر وہی ہے جو بارش کے پہلے قطرہ سے آنے والے طوفان کی شدت کا اندازہ لگا سکے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو ماسکو کے دورہ کی دعوت دی گئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بیگم لیاقت علی خان نے ماسکو کے سرد موسم کی نسبت سے مختلف لباس بھی تقریبات کی مناسبت سے تیار کروا لئے تھے لیکن واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر جناب ایم اے ایچ اصفہانی کے اصرار پر وزیراعظم پاکستان دورہ روس ملتوی کرکے امریکہ کے دورہ پر روانہ ہو گئے۔ وہ دن اور آج کا دن پاکستان کا کوئی صدر یا وزیراعظم ماسکو کے دورہ پر مدعو نہیں کیا گیا اور نہ روس کے کسی صدر یا وزیراعظم نے پاکستان کے دورے کی ضرورت محسوس کی۔ گزشتہ 65 سال روس کے بھارت کے ساتھ تعلقات اور اسلام آباد کے ماسکو سے تعلقات تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ریاستوں کے درمیان کبھی بھی دائمی محبت یا نفرت کے رشتے مستقل بندھن نہیں ہوتے بلکہ حالات کے مطابق ہر ریاست کے اعلیٰ ترین مفادات اور سٹرٹیجک مقاصد اور اہداف کے مطابق گلوبل مدوجزر کے تابع ہوتے ہیں۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ آج امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے باوجود طرح طرح کے گلوبل چیلنجز سے دوچار ہے۔ جس میں ایک طرف اندرونی سطح پر سال کے آخر میں صدارتی انتخابات اور دوسری طرف افغانستان کی جنگ میں ناکام ہو کر 2014ءکے اختتام سے پہلے امریکی فوجوں کا افغانستان سے انخلاءاور اپنے حساس فوجی سازو سامان وہتھیاروں کی واپسی ہے۔ اس کے ساتھ واشنگٹن کیلئے دو ایشوز درد سر بنے ہوئے ہیں۔ اول: امریکی اور نیٹو فورسز کیلئے 2014ءتک محفوظ سپلائی لائن کا یقینی بنانا ورنہ انخلاءسے پہلے اپنی فوجوں کا افغانستان میں برقرار رکھنا نہ صرف انتہائی پر خطر ثابت ہو سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر امریکہ کے امیج کیلئے ایک سنگین دھچکا ثابت ہوسکتا ہے۔ دوئم: 2014 ءکے بعد جب امریکی اور نیٹو فورسز کا بیشتر حصے کا انخلاءہو چکا ہو گا‘ امریکہ افغانستان اور جنوبی ایشیاءاور ملحقہ وسطی ایشیاءکی ریاستوں میں اپنا اثر و رسوخ اور وہاں کی معدنی تیل‘ گیس کے ذخائر سے استفادہ کس طرح یقینی بنائے گا۔ ان مسائل پر جنیوا اور شکاگو میں ہونے والی کانفرنسوں میں پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور اگلے تین ہفتوں میں ان معاملات اور موضوعات پر مزید کانفرنسیں ہونے والی ہیں۔ جن میں پاکستان کے مفادات کو نظرانداز کرتے ہوئے بھارت کو جنوبی ایشیاءکے علاوہ افغانستان اور وسطی ایشیاءکی ریاستوں میں بھی زیادہ عمل دخل کا رول دینے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جو پاکستان کیلئے شدید سٹرٹیجک تشویش کا باعث ہے۔ روس کے بھارت کے ساتھ انتہائی قریبی سیاسی اقتصادی اور دفاعی تعلقات کے باوجود روس ان خطرات سے کیسے اپنی آنکھیں بند کر سکتا ہے جو امریکہ کی وسطی ایشیاءمیں بڑھتی ہوئی مداخلت وہاں کی بعض ریاستوں میں اپنے امریکی فوجی اور فضائیہ کے اڈے قائم کرنے کی منصوبہ بندی سے گزرتے وقت کے ساتھ زیادہ واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لئے اسلام آباد اور ماسکو اپنی اپنی مختلف وجوہات کے باعث ان اقدامات سے نہ صرف ناخوش بلکہ بدظن ہوتے جا رہے ہیں۔ جو امریکہ اپنے اس خطہ میں جیو سٹرٹیجک مفادات کو وسعت دینے کیلئے آگے بڑھا رہا ہے۔
قارئین غالباً حیران ہو رہے ہونگے کہ کالم کا عنوان تو جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دورہ ماسکو کے بارے میں تھا لیکن اوپر بیان کئے گئے سارے فسانے میں جنرل کیانی کا کوئی ذکر نہیں۔ کیا راقم نے کالم کے ابتداءمیں یہ عرض نہیں کیا تھا کہ اہل نظر پانی کے ایک قطرہ میں دجلہ اور فرات کے دریاﺅں میں آنے والے طوفان کی آمد کا ادراک رکھتے ہیں۔ آخر روس کے صدر گزشتہ منگل کو پاکستان کا دورہ کیوں کرنے والے تھے جس میں پاکستان اور روس کے علاوہ وسط ایشیاءکی دو ریاستوں کے سربراہ بھی ایک سربراہی کانفرنس کرنے والے تھے۔ لیکن پھر بعض ”ناگزیر وجوہات کی بناءپر“ صدر پیوٹن نے اپنا دورہ اگرچہ منسوخ کردیا لیکن چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا دورہ ماسکو برقرار رہا اور صدر پیوٹن کی جگہ روس کے وزیرخارجہ بھی گزشتہ روز بغیر ڈھول بجائے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ نصف صدی کی بوسیدہ اور اذکار رفتہ فارن پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے کیلئے اقدامات کی ابتداءکی جائے۔ صدر پیوٹن کایہ تجزیہ یقیناً درست تھا کہ مناسب ہوم ورک کئے بغیر چاروں ممالک کے سربراہوں کی ایسی کانفرنسیں جس سے ٹھوس نتائج برآمد نہ ہوں ذرا قبل از وقت تھیں۔ لیکن پاکستان کے حالیہ سیاسی سماجی اور توہین رسالتﷺ کے ملکی سطح پر پر تشدد احتجاجات اور اسلام آباد میں ریلیوں اور جلسے جلوسوں کو کنٹرول کرنے کیلئے حکمران جماعت کی قلعہ بندیاں اور صدر پاکستان کا اس موقع پر بیرون ملک ہونا سب اسباب مل جل کر پیوٹن وزٹ کے التواءکا باعث بنے لیکن دفاعی اور جیو سٹرٹیجک معاملات پر ماسکو میں جنرل کیانی سے صدر پیوٹن اور دیگر روسی سول و ملٹری روسی رہنماﺅں کی ملاقاتیں برقرار رکھی گئیں۔ عین انہی دنوں میں جب امریکی فوج کے چیئرمین جائنٹ چیف آف سٹاف نے اسلام آباد آمد کا عندیہ دیا تو پاکستان کی تاریخ میں جنرل اشفاق پرویز کیانی پہلے فوجی سربراہ ہیں جنہوں نے امریکی جنرل سے معذرت کر لی اور ماسکو کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ حالانکہ گزشتہ نصف صدی کی فوجی روایت یہ ہے کہ سیاسی سطح پر کوئی بھی جماعت اسلام آباد میں حکمران ہواور اسلام آباد واشنگٹن کے تعلقات میں مدوجزر کا جو بھی عالم ہو جی ایچ کیو اور پینٹاگون میں باہمی اعتماد کے رشتوں میں کبھی فرق نہیں آیا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی پہلے فوجی سربراہ ہیں جنہوں نے پاکستان کے اعلیٰ ترین جیو پولیٹیکل اور جیو سٹرٹیجک مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہوئے برملا قائد اعظم کے تصور پاکستان سے افواج پاکستان کی وابستگی اور حفاظت کیلئے قوم کے سامنے بار بار اعلان اور عہد کیا ہے اور اسی جذبہ کے تحت جنرل کیانی نے ماسکو کا سفراختیار کیا ہے۔
جنرل کیانی کے دورہ ماسکو کا سٹرٹیجک جائزہ
Oct 05, 2012