3اِکتوبر کو ۔صدر زرداری، کراچی میں ، بلاول ہاﺅس کے صدارتی کیمپ آفس میں تھے، کہ انہوں نے وزیراعظم راجا پرویز اشرف کو ، سُپریم کورٹ کے حُکم پر ، سوئس حُکّام کو لِکھے جانے والے ،خط کے مسّودے پر مُشاورت کے لئے، خصوصی طو ر پر طلب کِیا تھا ۔وزیرِاعظم تمام مصروفیات ترک کر کے، کراچی تشریف لے گئے ۔مُشاورت میں وزیرِ قانون فاروق ایچ نائیک اور سرکار کے وکیل سابق چیئر مین سینٹ جناب وسیم سجادبھی شامل تھے ۔ وزیراعظم کی سواری ، ائر پورٹ سے120گاڑیوں کے پروٹوکول میں بلاول ہاﺅس گئی جَِن میں وزیرِاعظم کی حفاظت کے لئے ، مختلف ایجنسیوں کے تقریباً400 لوگ سوار تھے ۔سُپریم کورٹ کی طرف سے، نا اہل قرار دئیے جانے والے وزیرِاعظم ،یوسف رضا گیلانی بھی، جب صدر زرداری کی طلبی پر ، کراچی کے صدارتی کیمپ آفس تشریف لے جاتے تھے، تو اِسی دھج سے جاتے تھے ۔ فیض احمد فیض کے ایک مصرع میں معمولی سے تصّرف کے بعد ۔
” جِس دھج سے کوئی ، ” طلبی “ پہ گیا
وہ شان سلامت رہتی ہے “
جناب یُوسف رضا گیلانی نے جو روایت چھوڑی ، راجا پرویز اشرف نے اُسے نہ صِرف قائم رکھا، بلکہ آگے بڑھایا ۔ امیر مینائی نے اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہا تھا ۔
” خُدا نے شانِ یُوسف سے ، تمہاری شان افضل کی
کھُلی سب ، نقشِ ثانی سے ، حقیقت نقشِ اوّل کی “
یہاں ، یُوسف رضا گیلانی ، صدر زرداری کے نقشِ اوّل تھے اور راجا پرویز اشرف ، نقشِ ثانی ہیں۔پہلے گیلانی صاحب ، صدر صاحب پر قُربان ہوئے اور اب راجا جی کی قُربانی کو، جائز کرانے کے لئے، مُشاورت کی جا رہی ہے ۔ سوِئس کیس۔ انفرادی ( آصف علی زرداری کا) تھا، لیکن اب صدر صاحب کے ” فلسفہءاستثنیٰ“ کے تحت ریاست کا مسئلہ بن گیاہے ، یعنی اسلامیہ جمہوریہ پاکستان اور پاکستان کے 19کروڑ 75لاکھ عوام کی عِزّت کا سوال۔ یُوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ کو بچانے کے لئے ،صدر صاحب اور اُن کے مُشیروں نے اِتنی سنجیدگی اختیار نہیں کی تھی ، جِتنی کہ، راجا پرویز اشرف کی وزارتِ عظمیٰ کو بچانے کے لئے اختیارکی جا رہی تھی ۔ جب راجا جی کی وزارتِ عظمیٰ اِتنی قیمتی ہے تو اُن کی جان کِتنی قیمتی ہو گی ؟۔یہ صدر زرداری خُوب جانتے ہیں ۔ اِس لحاظ سے اگر راجا صاحب 120کے بجائے 420گاڑیوں کا قافلہ لے کر بھی ،صدر صاحب کی خدمت میں پیش ہو تے تو کیا مضائقہ تھا ؟۔
وزیراعظم راجا پرویز اشرف کی ” قیمتی جان“ سے مجھے مُغل بادشاہ شاہ جہاں کے وزیراعظم نواب سعد اللہ خان یاد آرہے ہیں۔ چنیوٹ کا سعد اللہ خان ۔لاہور میں روزگار کی تلاش میں آیا۔ سرکاری ٹھیکیدار کا مزدُور ، پھر مُنشی بن گیا اور اپنی ذاتی قابلیت سے شاہی لائبریری کا اِنچارج ۔پھر بادشاہ کے ” شُعبہ خط وکتابت“ کا سربراہ بن گیا ۔ ایران کے بادشاہ کی طرف سے شاہ جہاں کو خط مِلا کہ ۔” آپ صِرف ہندوستان کے بادشاہ ہیں تو ” شاہ جہاںیعنی ساری دُنیا کا بادشاہ کیوں کہلاتے ہیں؟۔“ اِس خط کا جواب سعد اللہ خان نے لِکھا ۔ اُس نے ہندوﺅں کی مقدّس کتابوں سے ثابت کر دِیا کہ۔ دِلّی دُنیا کا مرکز ہے اور جو کوئی دِلّی کے تخت پر بیٹھ جائے، وہ ” شاہ جہاں “ ہی ہوتا ہے “۔کاش آج سعد اللہ خان ، صدر زرداری کا وزیراعظم ہوتا ، تو یقیناًوہ، ایسا خط لِکھ دیتا ،جِس سے سُپریم کورٹ، سوِئس حُکّام ، صدر زرداری اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں مُطمئن ہو جاتِیں ۔ سعد اللہ خان کے خط کے جواب میں، شہنشاہِ ایران نے شاہ جہاں کو پھر خط لِکھا کہ۔ ” مجھے یقین ہے کہ میرے خط کا جواب آپ کے وزیراعظم نے لِکھا ہو گا ۔ اگر خط لِکھنے والا ، وزیراعظم نہیں ہے، تو آپ اُسے ایران بھیج دیں۔ میں اُسے وزیراعظم بنا لوں گا “۔
شاہ جہاں لاہور کے شالا مار باغ میں ، فوج کے ایک چاق و چوبند دستے سے سلامی لے رہا تھا ۔ اُس نے تقریب میں موجود ” امیرِ خط و کتابت “ نواب سعد اللہ خان کو حُکم دیا ۔” سعد اللہ خان میرے پاس آﺅ !“ ۔ سعد اللہ خان نے حُکم کی فوری تعمیل کی اور راستے کا ” نالا “ پھلانگ کر بادشاہ کے حضور پیش ہو گیا ۔ شاہ جہاںنے کہا ۔” آج سے تمہیں وزیراعظم بنایا جاتا ہے “۔ سعد اللہ خان کورنش بجا لایا ۔واپس مُڑا اور فوجی دستے کے کمانڈر سے بولا ” ہمارے گُزرنے کے لئے اِس ”نالے“ پر تختہ بچھایا جائے “ ۔اِس دوران ایک حاسد وزیر نے،( جو شاید خُود وزارتِ عُظمیٰ کا امیدوار ہو گا)۔ شاہ جہاںسے کہا ۔ ” بادشاہ سلامت! سعد اللہ خان وزیراعظم بنتے ہی اپنی اوقات بھُول گیا ہے ۔ پہلے یہ ” نالا“ پھلانگ کر آیا تھا ، لیکن وزیراعظم بنتے ہی اِس نے فوجی دستے کے کمانڈر کو اپنے گزرنے کے لئے تختہ بچھانے کا حُکم دے دِیاہے ۔“شاہ جہاں بھی ،روایتی بادشاہوں کی طرح ، کانوں کا کچّا نِکلا۔اُس نے وزیراعظم سعد اللہ خان کو پھر طلب کیا اور پوچھا ۔” یہ تُم نے کیا کِیا ؟ “ وزیراعظم نے کہا ” جہاں پناہ !جب میں عام درباری تھا تو میری جان اتنی قیمتی نہیں تھی ،کہ میں اگر نالے میں گِر کر زخمی ہو جاتا یا مر جاتا،تو کوئی فرق نہ پڑتا ۔ اب میں وزیراعظم ہوں اور مجھے نالے میں گِر کر نہیں بلکہ مُغلیہ سلطنت کی حفاظت کے لئے ،میدان ِ جنگ میں لڑتے ہوئے اپنی جان قُربان کرنا چاہیے ۔اِس جواب سے شاہ جہاں ،بہت خوش ہُوا ۔
شاہ جہاں کو، ہندوستان کی حکومت اُس کی چہیتی بیگم ، ارجمند بانو کے ذریعے نہیں مِلی تھی ۔ وہ سُلطان ابنِ سُلطان تھا ۔اِس کے برعکس جناب آصف علی زرداری ،ا پنی اہلیہ، محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی وراثت سنبھال کر منصبِ صدارت پر فائز ہوئے ہیں ۔ شاہ جہاںنے بیگم ارجمند بانو کی یاد میں ” تاج محل “ بنوایا ۔ صدر زرداری نے محترمہ کے لئے، اِس طرح کی کوئی یادگار نہیں بنوائی ۔ وہ تویہی چاہتے ہیں کہ، مرحومہ کی قبر کا Trial نہ کیا جائے۔صدر زرداری ” عوامی بہبودکے کاموں میں“۔ اِتنے مصروف رہے کہ، وہ اپنے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو تلاش کر کے ، انہیں سزا بھی نہیں دِلوا سکے ۔قوم کے لئے اِس سے بڑی قُربانی اور کیا ہو سکتی ہے ؟۔
ذوالفقار علی بھٹو صدر اور چیف مارشل لاءایڈمنسٹر تھے ۔انہوں نے وزیراعظم کا منصب سنبھالا تو گجرات کے فضل الہیٰ چودھری کو صدر پاکستان منتخب کروا دیا۔چودھری صاحب، بھٹو صاحب کے نیاز مند اور فِدوی قِسم کے صدر تھے ۔ وزیراعظم بھٹو ، بیرونی دورے سے واپس آنے والے تھے ،تو چودھری صاحب اُن کا استقبال کرنے کے لئے ائر پورٹ جانے کی تیاری کر رہے تھے، کہ پروٹوکول والوں نے، اُن سے کہاکہ۔”صدرِ محترم! آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ آئین کی رُو سے وزیراعظم آپ کے ماتحت ہیں “ ۔صدرِ فضل الہیٰ نے کہا ” یار! کِتے اوہ(بھٹو) ناراض ای نہ ہو جاوے !“ ۔اِس وقت صدر زرداری آئینی صدر ہیں اور راجا صاحب چیف ایگزیکٹو ،لیکن اُن کی حیثیت ۔ ” عِنداُلطَلب وزیرِاعظم “ کی ہے۔اُنہیں معلوم ہے کہ ۔ طاقت کااصل سرچشمہ صدر زرداری ہیں۔
راجا پرویز اشرف ۔” عِنداُلطَلب وزیرِاعظم“
Oct 05, 2012