پشاور (بیورو رپورٹ) پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان کی سربراہی میں قائم ڈویژن بنچ نے صوبہ کے مختلف علاقوں سے پراسرار طور پر لاپتہ شہریوں سے متعلق وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے دی گئیں رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے وفاقی وزارت داخلہ و دفاع کے زیر انتظام حساس اداروں آئی ایس آئی، ایم آئی، فرنٹیئر کور و دیگرکے تمام ڈی ٹینشن سنٹروں کی لسٹ طلب کر لی جبکہ صوبائی پولیس سربراہ اور سی سی پی او پشاور کو ماہرین پولیس افسروں کی ٹیم تشکیل دے کر تمام لاپتہ افراد کا کھوج لگا کر اس کی جامع اور مثبت رپورٹ اگلی سماعت پر (23 اکتوبر کو) عدالت میں پیش کرنے کے احکامات جاری کر دئیے ہیں، یہ احکامات گذشتہ روز عدالت عالیہ کے چیف جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس شاہجہان اخونزادہ پر مشتمل ڈویژن بنچ نے صوبہ کے مختلف اضلاع سے لاپتہ ہونے والے 45 سے زائد شہریوں سے متعلق دائررٹ حبس بے جا درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے دئیے، اس موقع پر وفاق کی جانب سے سٹینڈنگ کونسل جمیل ورسک، ونگ کمانڈر عرفان، صوبائی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نوید اختر، متعلقہ تھانوں کے ایس ایچ اوز اور دیگر پولیس حکام کی عدالت میں پیش ہوئے۔ پٹیشنر محمد ادریس کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس دوست محمد خان نے مقرر کردہ انٹرمنٹ سنٹروں (خصوصی مراکز) کو فنڈز کے اجرا کے حوالہ سے استفسار کیا تو وفاق کے سٹینڈنگ کونسل جمیل ورسک نے عدالت کو بتایا کہ جب زیر حراست افراد کیلئے انٹرمنٹ سنٹر بنے وفاق نے اسی وقت صوبائی حکومت کو فنڈز کا اجرا کر دیا تھا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے انٹرمنٹ سنٹروں کو فنڈز نہ ملنے کی شکایات موصول ہوئی ہیں جب وفاق کی جانب سے فنڈز کا اجرا ہو چکا ہے تو پھر کیوں ہوم ڈیپارٹمنٹ خیبر پی کے نے فنڈز دبائے رکھے ہیں، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ صوبائی حکومت انٹرمنٹ سنٹروں میں زیر حراست افراد کو سہولیات فراہم کر رہی ہے، فاضل عدالت نے اس جواب پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا اور صوبائی حکومت سے تمام مقرر کردہ انٹرمنٹ سنٹروں (خصوصی مراکز) کے انچارج کے نام، وفاقی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ فنڈز اور خصوصی مراکز میں سہولیات کے حوالہ سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔ فاضل عدالت نے پٹیشنر احمد شیر، حیاجان، شیرزادہ، اسلام جانہ مسماة معظمہ بی بی، روشن گل، مسماة مریم جانہ سمیت متعدد رٹ حبس بے جا درخواستوں پر لاپتہ افراد سے متعلق وفاقی وزارت داخلہ، دفاع، حساس اداروں اور صوبائی حکومت و پولیس کی جانب سے رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آخر ان لاپتہ افراد کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا کہ ان کا کوئی اتہ پتہ معلوم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی و صوبائی حکومتیں اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہیں۔ آئینی طور پر حکومت عوام کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے اس حوالہ سے احکامات دئیے ہیں اگر ان احکامات پر عملدرآمد نہیں ہو گا، اس مسئلہ کیلئے لارجر بنچ تشکیل دیں گے اور فیصلہ دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کی صورتحال صومالیہ سے بھی ابتر ہو چکی ہے، چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ معلوم نہیں کیوں اپنے لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کر دیتے ہیں، یہ لوگ عدالتوں پر اعتماد نہیں کرتے کہ عدالتیں انہیں چھوڑ دیتی ہیں۔ عدالت ثبوت مانگتی ہے اگر فائل پر کچھ نہیں تو وہ مجبوراً چھوڑ دیتے ہیں۔
لا پتہ افراد: پشاور ہائیکورٹ کا وفاقی‘ صوبائی حکومتوں کی رپورٹوں پر عدم اطمینان
Oct 05, 2012