ریاست کی سالمیت کی پہلی شرط معاشی استحکام ہوتا ہے۔ اگر کسی معاشرے کے افراد ریاست سے مطمئن اور خوشحال ہیں تو اس کا براہ راست اثر سیاسی استحکام پر پڑتا ہے لہٰذا حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے نہ صرف امن و امان بحال کرکے بلکہ بے روزگاری کے خاتمے کے لئے نئے وسائل پیدا کرے اور اس معاشی تفاوت کو ختم کرے جو معاشرہ کی جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے لیکن اگر کوئی بھی حکومت ان محرکات کے حصول میں ناکام ہو جاتی ہے تو ملک شدید بحرانوں کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ مملکت خداداد آج شدید بحرانوں کی لپیٹ میں ہے لیکن ہماری لغزشوں، کوتاہیوں، غلط فیصلوں نے ہمیشہ ان بحرانوں کی سنگینی میں اضافہ کیا ہے۔ ہم سے کوئی تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا نہیں چاہتا کہ قوت فیصلہ کی کمی اور ”تذبذب“ کی کیفیت عوام پر براہ راست کیا اثر ڈالتی ہے۔ دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ ایک شخص کا ادھر سے گزر ہوا اس کے معلوم کرنے پر ایک نے بتایا کہ ان کے سامنے جو بورڈ آویزاں ہے وہ سرخ ہے جبکہ دوسرے کا دعویٰ تھا کہ نیلا ہے۔ قریب جا کر اس شخص کو معلوم ہوا کہ بورڈ ایک جانب سے سرخ اور دوسری جانب سے نیلا ہے۔ ہمارے مزاج اور روئیے بھی کچھ اس قسم کے بن گئے ہیں کہ ہم بورڈ کا دوسرا رخ دیکھنا ہی نہیں چاہتے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حالات اور واقعات کی سنگینی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک ہی ریاست کے افراد میں اگر معاشی تفاوت پیدا ہو جائے تو معاشرہ غیر متوازن ہو جاتا ہے اگر ہم ان اصولوں کو حقیقت کی روشنی میں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ تیسری دنیا میں integration کے تمام محرکات اس لئے ناکام ہوتے ہیں کہ یہاں فی کس آمدنی کم ہے اور معاشی تفاوت عروج پر ہے۔ اس معاشی تفاوت پر کاری ضرب ہی معاشرے کے مختلف طبقات میں توازن پیدا کر سکتا ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ معاشرتی، مذہبی اور ثقافتی بنیادوں پر یکجہتی کو ممکن بنایا جا سکے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے سامنے وہ اعلیٰ مقصد رکھیں جس کا ذکر قائد نے کیا تاکہ ہم کسی ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو سکیں لیکن وہ اعلیٰ مقصد ہم سے کہیں کھو گیا ہے لہٰذا ہم اس حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے کہ گھمبیر مسائل کے لامتناہی سلسلہ کا سدباب کیسے کیا جائے۔
وطن تو شجرہ سایہ دار کی مانند ہوتا ہے اس کے انتظام و انصرام کے لئے ہجوم کی نہیں بلکہ ایسے حکمرانوں کی ضرورت ہوتی ہے جو حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوں۔ آج کا دور انتشار کا دور ہے کیونکہ محرومیوں اور مایوسیوں نے انسان کے اندر تصادم پیدا کر دیا ہے۔ یہ تصادم اسے خودکشی، جرائم اور دیگر محرکات کی طرف دھکیلتا ہے جبکہ نظاموں میں تصادم معاشرے پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ایک معاشرے میں بہت سے نظام کام کر رہے ہوتے ہیں جب یہ تصادم انتہا کو پہنچتا ہے تو انتشار کا باعث بنتا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس مملکت خداداد میں بڑھتے ہوئے شدید بحرانوں کا ازالہ کر سکیں تو ہمیں اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔ ہمارا مرکز و محور عوام کو غربت کی دلدل سے نکالنا اور بے روزگاری کا خاتمہ ہونا چاہئے جس کے لئے ہمیں ان وسائل کو بروئے کار لانا ہے جو بے روزگاری کی شرح کو کم کر سکیں جس میں صنعتی و زرعی نظام کی بحالی اہم عنصر ہے اور ان کی بحالی کے لئے توانائی کے بحران کا فوری طور پر حل اولین حیثیت رکھتا ہے۔
غربت کے خاتمے کے لئے بھی واضح حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے عوامی مسائل سے لاتعلقی کی بجائے گڈ گورننس انتہائی ضروری ہے۔
ہماری لیڈر شپ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ مقصد کے جذبے کو مدنظر رکھتے ہوئے تصویر کا صحیح رخ عوام کے سامنے رکھیں اور ”سب ٹھیک ہے“ کی گردن کرنے والوں پر اعتبار کی بجائے حالات و واقعات کا خود جائزہ لیں تاکہ ملک کا جو حصہ ہمارے پاس رہ گیا ہے۔ اس کی بقا کو یقینی بنائیں کیونکہ ہم سب پاکستان کی تاریخ سے واقف ہیں کہ جب اجتماعی شوہر کی جڑوں میں خود غرضی کا وائرس پھیل جاتا ہے تو قوم کو جھوٹے وعدوں کی لٹھ سے ہانکنا آسان ہو جاتا ہے۔
”مسائل اور حکومتی تقاضے“
Oct 05, 2013