پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیراعظم نوازشریف نے 2013ءکے تمام انتخابات کے دوران ایک دس نکاتی ایجنڈا پیش کیا اس دس نکاتی ایجنڈے میں ملک میں توانائی کے بحران پرقابو پانا‘ مہنگائی اور افراط زر کو کنٹرول کرنا‘ اقتصادیات کی بحالی‘ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا‘ سماجی انصاف کو یقینی بنانا تھا اور غربت مہنگائی ‘ بے روزگاری لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کو ختم کرنا تھا میاں نوازشریف نے تو انتخابی مہم کے دوران پاکستان کو بدلنے کی بات کی تھی۔ انہوںنے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کشکول توڑ دیں گے مگر حالات سب کے سامنے ہیں۔ کشکول تو نہیں ٹوٹا البتہ قرضے کیلئے آئی ایم ایف سے طے شدہ شرائط کوپورا کرنے کیلئے عوام کو زندہ درگور کرنے پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ پٹرول اور بجلی کے نرخوںمیں جب بھی اضافہ ہوا ہے۔ تب تب مہنگائی کا ایک سیلاب آتا ہے جس سے عوام کی زندگی بہت سی مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر روز مرہ استعمال کی اشیاءعام آدمی کی دسترس سے باہر ہو جاتی ہیں اور حالیہ اضافے سے بھی عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین لیا گیا۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ بھارت میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں بھی تیل کی قیمت کم ہوئی لیکن پاکستان میں اس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا اور پاکستان کی ماضی کی حکومتیں بھی ایسا کرتی رہی ہیں۔ آج موجودہ حکومت عوام کے ساتھ جو کچھ کررہی ہے۔ ایسا تو پاکستان میں ہر نئی حکومت اور نئے حکمران نے اپنی قوم کے ساتھ کیا ہے‘ آج اگر نوازشریف بھی ایسا ہی کر رہے ہیں تو یہ کوئی نیا نہیں ہے‘ بس فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے اپنی ایک سویا ایک سوپچیس دنوں کی حکومت میں عوامی توقعات کے برخلاف اتنا کچھ کر دیا کہ جو دوسرے شاید دوچار ماہ یا مجموعی طور پر ایک دو سال بعد کیا کرتے تھے۔ مگر آج نومولود نواز حکومت نے تو ملک میں تبدیلی کے نام پراتنا کر دیا ہے کہ قومی بلبلا اٹھی ہے۔ انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) کی زبردست مقبولیت اور اس کے پرکشش نعروں‘ وعدوں اور دعوﺅں کی وجہ سے عوام کی اکثریت نے اس پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا گیا لوگوں کویقین تھا کہ اس جماعت نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے یقیناً سبق سیکھا ہوگا لیکن پاکستان کے سیاست دانوں نے اپنی اور دوسروں کی غلطیوںسے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ چنانچہ مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار آتے ہی اپنے پہلے بجٹ سے عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ ڈالنے کا جوسلسلہ شروع کیا تھا‘ اسے آج تک نہ صرف برقرار رکھا ہواہے‘ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بتدریج اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے پاس بھی ماضی کی تمام حکومتوں کوگھسا پٹا جواز ہے کہ اسے خزانہ خالی اور قومی ادارے تباہ حالت میں ملے۔ ایسے میں ٹیکس لگا کر اور مہنگائی میں اضافہ کرکے ہی ملک چلایا جاسکتا ہے۔ اس حکومتی عذر لنگ کے جواب میں صرف دو باتیں پوچھی جا سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اگر صورت حال کو اس طرح برقرار رکھنا تھا‘ تو حکومت کی تبدیلی کیا ضروری تھی؟ اس معاملے میں سابقہ حکومت کیا بری تھی؟ دوسری بات یہ کہ آخر عوام ہی کو ہرمرتبہ قربانی کا بکرا کیوں بنایا جائے؟ مقتدر و متمول طبقے بے پناہ مال و دولت جائیداد‘ اور اثاثوں میں ملک و قوم کے لئے ایثار کب کریںگے؟ ملک کے اندرنی بیرونی قرضوں سے کئی گناہ زائد املاک اور اثاثے چند خاندانوں کے پاس مجود ہیں۔ اس کے باوجود انہیں بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کر کے غریب عوام کا جینا مزید دو بھر کرنے کے سوا کچھ اور کیوں نہیں سوجھتا؟ کیا ان کی اقتصادی پالیسیاں آئی ایم ایف جیسے سود خور استحصالی مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھی ہوئی ہیں کہ وہ ہر دوسرے چوتھے روز کبھی بجلی گیس اور کبھی پٹرول کے نرخ بڑھا کر اپنے ہی عوام کو مشتعل کرنے لگے ہوئے ہیں اب پانی سروں سے اونچا ہونے لگا ہے۔ اس لئے عوام کو اب سڑکوںپر نکلنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہئے اور حکمرانوں کافرض ہے کہ وہ ان مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ان کو ریلیف دے کر بجلی اور تیل کے نرخوں میں اضافے کو واپس لے اور مہنگائی غربت بے روزگاری لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی کو ختم کریں اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو عوام سڑکوں پر آ کر احتجاج کا سلسہ شروع کر دیں گے۔
حکوت نے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جو اضافہ کیا ہے وہ واپس لے لیں اگر سپریم کورٹ کا قیمتیں کم کرنے کا حکم آ گیا اور آپ کی حکومت نے اس حکم سے مجبور ہو کر اضافے کا فیصلہ واپس لے لیا تو آپ کی حکومت بڑی سبکی کی بات ہو گی۔