میرے شہر کے لوگوں میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ میں نے قائد اعظم کے افکار و نظریات اور تعلیمات کے حوالے سے بہت کچھ پڑھ رکھا ہے۔ اس لئے مختلف تعلیمی اداروں میں مجھے قائد اعظم کی حیات و خدمات اور بالخصوص ان کے تصور پاکستان کے موضوع پر گفتگو کرنے کی اکثر دعوت دی جاتی ہے۔ میری عادت میں شامل ہے کہ جب کبھی کسی ادارے یا تنظیم کی طرف سے قائد اعظم کے سبق آموز افکار پر اظہار خیال کے لئے مجھے حکم صادر کیا جاتا ہے تو میں دوبارہ بلکہ ہر دفعہ قائد اعظم کی تصاویر، بیانات اور انٹرویوز پر مبنی کتابیں پڑھنے کے لئے بیٹھ جاتا ہوں۔ میری یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ قائد اعظم کے فرمودات کو ان ہی کے الفاظ میں پیش کیا جائے۔ میں نوائے وقت کے اپنے محترم قارئین اور خاص طور پر نوجوان نسل سے یہ درخواست کروں گا کہ وہ بھی قائد اعظم کے تصور پاکستان کی واضح تفہیم کے لئے براہ راست قائد اعظم کی تقاریر کا مطالعہ کریں۔سب سے پہلے تو ہمیں یہ نظریہ اپنے دل میں راسخ کر لینا چاہئیے کہ پاکستان جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا اس دو قومی نظریے کے پس منظر میں یہ حقیقت تھی کہ ’’مسلمان ایک الگ قوم ہیں‘‘ جن کی اپنی الگ اقرار، الگ قوانین اور الگ رسم و رواج ہیں۔ مسلمانوں کے سیاسی اصول اور معاشی نظام بھی الگ ہے۔ قائد اعظم نے سٹیٹ بینک کا افتتاح کرتے ہوئے یکم جولائی 1948ء کو فرمایا تھا کہ ’’مغربی معاشی نظریات ہمارے عوام کو خوشحال اور مطمئن بنانے کے لئے فائدہ مند نہیں ہو سکتے۔ ہمیں دنیا کے سامنے وہ معاشی نظام پیش کرنا چاہئیے۔ جو اسلام کے انسانی مساوات اور سماجی انصاف کے حقیقی تصورات پر مبنی ہو‘‘۔
جب پاکستان کا قیام عمل میں آگیا تو قائد اعظم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’ہمارا مقصد محض اپنا ایک الگ ملک بنانا نہیں تھا بلکہ یہ ملک کچھ اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ ہم ایک ایسا وطن تخلیق کرنا چاہتے تھے جہاں ہم آزادی کی سانس لے سکیں‘ اپنی تہذیب و تمدن اور اقدار کے مطابق زندگی بسر کر سکیں اور اسلام کے سماجی عدل کی راہ پر چل سکیں‘‘۔
قائد اعظم نے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی اپنی تقاریر میں اسلام کے انسانی مساوات اور سماجی عدل کے اصولوں پر مبنی ایک فلاحی معاشرہ تشکیل دینے پر زور دیا تھا جہاں چور بازاری نہ ہو، مہنگائی نہ ہو اور جہاں عوام غربت اور فاقہ کشی کے باعث خودکشیوں پر مجبور نہ ہوں۔ قائد اعظم نے کرپشن (بدعنوانی) کو ایک لعنت قرار دیا تھا۔ قائد اعظم رشوت خوری کو خودغرضی اور اخلاقی و ذہنی پستی کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔ قائد اعظم کا یہ فرمان بھی تھا کہ اگر آپ پاکستان کو خوشحال اور خوشیوں سے بھرپور دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں تو سب سے زیادہ توجہ غریب طبقات کی فلاح و بہبود پر دینا ہو گی۔ قائد اعظم نے اپنی 24 اپریل 1943ء کی تقریر میں جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے خلاف انتہائی سخت الفاظ استعمال کئے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ ’’جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام اتنا خود غرض ہے کہ عوام کا استحصال کرنا ان کے خون میں شامل ہو چکا ہے۔ جاگیر دار اور سرمایہ دار طبقہ اسلام کی تعلیمات کو فراموش کرچکا ہے‘‘۔ قائد اعظم نے یہ بھی فرمایا کہ جاگیر دار اور سرمایہ دار طبقہ اپنے ظلم اور خودغرضی میں اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ اب انہیں دلائل سے سمجھانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
قائد اعظم نے اقلیتوں کے بارے میں بھی آزادی اور مساوات کا بار بار درس دیا تھا۔ اقلیتوں کو اپنی مذہبی عبادات کی بھی مکمل آزادی ہوگی اور بطور شہری تمام پاکستانیوں کے حقوق مذہب اور رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر برابر ہوں گے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ قائد اعظم نے لارڈ مائونٹ پر بھی واضح کر دیا تھا کہ غیر مسلموں کے ساتھ خیرسگالی اور رواداری کا برتائو ہم نے اپنے رسول کریمؐ سے سیکھا ہے۔
قائد اعظم قرآن حکیم کو ایک مکمل ضابطہ حیات قرار دیتے تھے لیکن ہم نے اپنی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں قرآن کی تعلیمات کو نافذ نہیں کیا۔ ہمارا نظام معیشت آج بھی سود پر مبنی ہے۔ جب تک ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی معاملات میں قرآن مجید سے رہنمائی حاصل نہیں کریں گے۔ ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم نے اپنے پیارے پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنانا ہے تو یہاں سے جھوٹ اور منافقت کی سیاست کو ختم کرنا ہو گا، کرپشن، بدعنوانی، ظلم، نا انصافی اور استحصال کی ہر شکل کو مٹانا ہو گا۔ عوام کا خون چوسنے والے موجودہ نظام سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ سیاست دانوں کو بھی اب اپنے طور طریقے بدلنا ہوں گے۔ آزادی، مساوات اور تبدیلی کے صرف نعرے بلند کرنے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ قائد اعظم نے نقوش قدم پر چلتے ہوئے ہمیں عملی اقدامات کی طرف فوری توجہ دینا ہوگی۔