تعلیم: نیب، عیب، وفاق اورصوبے؟

صرف 5 سوالات ہیں جو وزیراعظم پاکستان، وزرائے اعلیٰ، چیئرمین حضرات برائے ہائرایجوکیشن (وفاق، سندھ اور پنجاب) ہی سے نہیں بلکہ پاکستان بھر کے تمام وائس چانسلر حضرات سے بھی پوچھنے ہیں۔ سوالات کا لفظ شاید میں ایویں استعمال کر گیا، حقیقت میں تو ایک سلسلہ فریاد ہے اور وہ بھی ہاتھ جوڑ کر اور پاﺅں پکڑ کر:

(1) 18ویں ترمیم کے بعد سندھ اور پنجاب نے اپنے اپنے ہائر ایجوکیشن کمشن بنالئے، بلوچستان اور کے پی کے اس قابل نہیں یا وہ نہیں چاہتے یہ ایک الگ سوال ہے۔ وفاقی ہائرکمشن کے پاس مالیات اور سہولیات ہیں اور صوبائی ہائرایجوکیشن کمشن (بالخصوص پنجاب) تعلیمی انتظام و انصرام اور گنجی کانی تقرریاں انجوائے کر رہا ہے۔ اعلیٰ حکام بتلائیں گے کہ صوبے آئین سے انحراف کی شاہراہ پر گامزن ہیں یا وفاق، 18 ویں ترمیم ہائرایجوکیشن کے لئے درد سر بن گئی ہے یا حکام آئینی اعتبار سے کم فہم اور نادان ہیں یا دانستہ ڈھنگ ٹپاﺅ مہم جاری ہے؟
(2) کئی وائس چانسلر حضرات ریسرچ کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، ان کی باتیں سنیں تو ہم محسوس یہ کرتے ہیں کہ جیسے مغرب سے ایک صدی ہم آگے ہیں لیکن سرکاری یونیورسٹیاں ریسرچ کے بجائے تعلیم فروشی میں پرائیویٹ سیکٹر سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں، مقصد مال و زر کمانا ہے اورنام لیتے ہیں ریسرچ کا یونیورسٹیاں تعلیم عام کرنے کے نام پر جو بچے پیدا کر رہی ہیں ان بچہ کیمپسوں کا اگر ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے تو رزلٹ کی پاداش میں نیب کا حرکت میں آنا فرض بن جائے۔ لاہور کی ایک سرکاری یونیورسٹی جس کے پنجاب بھر میں تقریباً 10 کیمپس ہیں اور صرف ایک ”فل پروفیسر“ وہ بھی ڈی جی خان اور وہ بھی آج کل ریٹائر ہونے والا، رہے نام اللہ کا دو چار دن قبل اس یونیورسٹی کا اشتہار برائے پی ایچ ڈی اور ایم فل آیا اور کوئی مضمون نہیں چھوڑا جسکی آفر نہیں۔ یہ یونیورسٹی خاک پی ایچ ڈی کرائے گی اور کیا اس کی ریسرچ ہوگی؟
(یہ درست ہے کہ یہ اشتہار حال ہی میں تقرری پانے وائس چانسلر ڈاکٹر روف اعظم نے نہیں دیا ہوگا، کیونکہ انہیں تو پہلے پروفیسر بھرتی کرنے ہوں گے)۔ آخر اشتہار کس نے دیا؟ کیوں دیا؟ ڈاکٹر مختار احمد (چیئرمین ہائرایجوکیشن) سے ڈاکٹر نظام الدین (چیئرمین پنجاب ایچ ای سی) تقریباً 10، 10 لاکھ میں اس قوم کو پڑتے ہیں۔ پھر وفاقی وزیر مملکت بلیغ الرحمن اور وزیر تعلیم پنجاب وغیرہ یہ تماشا دیکھ کر بھی یونیورسٹیوں کو کھلی چھٹی دیئے ہوئے ہیں، تو کیوں؟ بلوچستان یونیورسٹی کے پلے کچھ نہیں، بہاﺅلدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے سابق کم موجودہ وائس چانسلر خواجہ علقمہ خیرالدین اور اس کے رجسٹرار کی بدعنوانی کا چرچا ہے۔ پچھلے دنوں ایک معتبر اخبار کی ایک جاندار رپورٹ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کے خلاف بھی تھی۔ مالی بدعنوانی اپنی جگہ، جناب مجاہد کامران نے پاکستان کی سب سے عظیم یونیورسٹی کو تایا زاد بھائی ڈاکٹر منصور سرور کے ذریعے چلانا چاہا لیکن عقد ثانی ڈاکٹر شازیہ اور تایا زادہ بھائی جب آپس میں رشتہ دار نہ جنگ و جدل اور قانونی جنگ میں پڑ گئے تو بعدازاں جامعہ پنجاب کو ”شریکے کی جھلستی آگ“ میں جھونک دیا۔ لمبے ہاتھ اور بڑے کالم نویسوں سے دوستی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ، گھر کو آگ ہی لگ جائے، گھر کے چراغ سے۔ یونیورسٹی کے سینے سے سڑک نکلوادے ایسے جیسے یہ رقبہ قائداعظم محمد علی جناح نے وقف نہیں کیا کسی کے باپ دادا نے کیا ہو، تو کیا وزیراعلیٰ پنجاب، کوئی نیب شیب کوئی نوٹس نہیں لے گی؟ جامعہ پنجاب کے حوالے سے تو نیب کو درخواستیں اور شکایات بھی وصول ہو چکی ہیں! کس یونیورسٹی نے ریسرچ اور ٹیکنالوجی کو ہم رنگ کر کے دکھایا ہے؟
(3) غریب ملک کے امیر حکمرانوں سے فریاد ہے کہ وہ یہ بھی پتہ کریں کہ ایچ ای سی کے قیام کے ابتدائی دنوں میں ایک خاص طبقہ کے بالعموم اور ایچ ای جے (حاجی ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ آف کمیسٹری) کو بالخصوص نوازنا اور پورے پاکستان کے سائنسدانوں کا جرم اور قصور کون اور کب بتائے گا؟ جب ایک شخص کو آئی ٹی کی ذمہ داری ملتی ہے تو وہ ”ان بکس“ کمپنی بناتا ہے جگہ جگہ اسی کے کمپیوٹر پہنچتے ہیں۔ لکشمی بلڈنگ جیسی تاریخی عمارت کو کوڑیوں کے دام پر لیز کرا لیا جاتا ہے کیونکہ اختیارات کا نشہ ہوتا ہے۔ دبئی میں بینتھم پریس لگا دیا جاتا ہے اور کنٹرول کراچی سے ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ یونیورسٹیاں استفادہ کرتی ہیں اور ایچ ای سی ادائیگیاں لیکن بینتھم پریس ہو، ایچ ای جے ہو یا معاملہ ان بکس کمپیوٹر فائدہ ہی فائدہ ڈاکٹر عطاءالرحمن محترم و مقدس کا! قائداعظم یونیورسٹی کو بنایا ہی ریسرچ کے لئے جاتا ہے، یہاں تو آغاز میں تھی ہی ایم فل لیکن پاکستان میں کل 7 عدد این ایم آر (نیوکلیئر میگنیٹک ریزونینس برائے تحقیق نامیاتی مرکبات ساخت) ہوں جن میں 6، جی ہاں چھ ایچ ای جے کے پاس اور صرف ایک یونیورسٹی کے پاس، باقی دانش گاہیں کہاں جائیں؟ ہے کوئی وارث پوچھنے والا؟ کوئی وزیر کوئی وزیراعلیٰ؟ کوئی ایچ ای سی چیئرمین! کوئی نیب! یا پھر فائلوں کے پیٹ بھی بھرے ہوئے اور اپنے بھی بھرے بھرائے؟ سیاستدان، سائنسدان اور بیوروکریٹس چکر دینا چھوڑدیں تو آج ہی ہم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں آجائیں۔
(4) کل تک میں بھی اس بات سے اتفاق کرتاتھا کہ وائس چانسلر حضرات پی ایچ ڈی ہوں، پروفیسر ہوں، ماہر تعلیم ہوں وغیرہ وغیرہ لیکن پچھلے دنوں جب پنجاب میں بیک وقت 10 وائس چانسلر حضرات کی سلیکشن کا موقع آیا تو متعدد کے ریسرچ پیپر میں جعلسازی، کچھ کے کھاتے میں مالی بدعنوانی، مثال کے طور پر ڈاکٹر اشتیاق قادری یونیورسٹی آف سرگودھا اور ڈاکٹر سائرہ شاہد لاہور کالج ویمن یونیورسٹی کے وائس چانسلرز بنتے بنتے محض اس لئے رہ گئے کہ ریسرچ میں گڑبڑ تھی۔ کیا جرم ثابت ہوجانے کے تناظر میں ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہونی چاہئے یا پھر سے وی سی لگنے کی جدوجہد؟
پیارے ڈاکٹرو اور پروفیسرو! پھر وہ لوگ درست ہیں جو کہتے ہیں کہ کوئی بھی اعلیٰ منتظم بذریعہ وزیراعلیٰ صوابدیدی اختیارات وائس چانسلر ہوسکتا ہے۔ جنرل (ر) محمد اکرم کو بطور وائس چانسلر UET لاہور میں تین دورانیے ملے اور انہوں نے کام کرکے دکھایا بھی ورنہ یہاں وی سی کم ہیں اور ”وی سی آر“ بہت۔ میں چونکہ خود ٹیچر ہوں لہٰذا اساتذہ کے لئے علم اٹھائے رکھا، انہی کے نعرے لگائے لیکن چند لوگوں کے رویئے سے مایوسی ہوئی جو آج بیورو کریسی کی سفارش کے باعث وی سی بنے بیٹھے ہیں اور اہلیت یا انتظامی و تدریسی امور کی دُور دُور تک کوئی شہادت نہیں ملتی۔ آج میں مغرب سے اتفاق کرتا ہوں کہ ایک وائس چانسلر کے نیچے کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ پرو وائس چانسلر ضروری ہیں جن کا انتخاب اعلیٰ تعلیمی و حکومتی حکام کریں، وائس چانسلر نہیں۔ ورنہ یہ وائس چانسلر بھانجے بھتیجے یا چاچے مامے اٹھا لائیں گے اور یونیورسٹیاں رشتہ دار گاہیں زیادہ اور دانش گاہیں کم لگیں گی۔ فرسودہ اور بوسیدہ رجسٹرار سسٹم سے جان چھڑانا اشد ضروری ہے۔ یہ وائس چانسلر حضرات جو باہر سے پڑھ کر آئے ہیں یا بہانوں سے قومی خزانے کے زیاں کے لئے باہر جانے کے پر تولتے رہتے ہیں، یہ خود ہی بتائیں ہم ریسرچ میں کتنے پیچھے اور پرو وائس چانسلر سسٹم سے بلاوجہ دُور کیوں ہیں؟
(5) سوال یہ بھی ہے اور ہاتھ باندھ کر ہے کہ محض سیاست چمکانے کے لئے نادر شاہی حکم سے یونیورسٹیاں بنانا اور پھر سکھا شاہی سے ان کو چلانا اور دھکے شاہی سے لوہا منوانے کی ناکام کوشش کرنا کہاں کی دانشمندی اور ”دانش گاہی“ ہے؟ اللہ کے بندو! خالی پڑے پوسٹ گریجوایٹ کالجز کو چلالیں، عنایت ہوگی۔ اوکاڑہ کے ایک ایم این اے عارف چوہدری سے پچھلے دنوں ملاقات ہوئی تو بڑھکیں مار رہے تھے کہ میں نے یونیورسٹی بنوادی، تھوڑے دنوں بعد ایک ”تحقیق“ سے معلوم ہوا کہ موصوف کی اپنی تعلیم میں گڑبڑ ہے اور ریکارڈ کا پردہ چاک ہوگیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ کے کرتا دھرتا اور سیاست کار بھی یہی ہوں۔ ستم تو یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے کئی 19ویں سے 21ویں گریڈ تک (حتیٰ کہ 22ویں کے بھی) تحقیق کار بھی سیاست کاروں اور فنکاروں سے کم نہیں۔ تنخواہ سو برس کی اور لاکھوں میں مگر تحقیق کی کل کی خبر نہیں۔ سارا دن ایک آدھا پیریڈ پڑھا لیا، سیاست کرلی، تحقیق کے نام پر مذاق اور کہلانا ہے مقدس گائے! اچھے استاد اور تحقیق کار پر ہمارے جان و مال قربان، اس کی عظمت کوسلام، بناﺅ کے متلاشی معلم کی خاک پا ہماری آنکھوں کا سرمہ، لیکن تحقیقی دھوکہ دہی بھی 420، 468 اور 471 کی دفعات کی مہمان ہوتی ہے! سیاست اور لفظوں کی جادوگری کی طرح ”ویژن 2025“ کی طرح کی ریسرچ نہیں، اپلائیڈ ریسرچ ضروری ہے۔ استاد اگر استاد ہی رہے تو ہم کہتے ہیں زندہ باد اور اگر ”بڑا ہی استاد“ بن کر ملک و قوم کے معماروں کو بے وقوف بنائے اور وطن دوستی کے بجائے وطن دشمنی کے عیب پر اتر آئے، تو کیا اُس کے لئے کسی ”تعلیمی نیب“ کی تشکیل کے لئے اسمبلی کو ترمیم لانی پڑے گی؟

ای پیپر دی نیشن