بیک چینل رابطوں میں پاکستان کی بھارت کو بانکی مون کی ثالثی قبول کرنے کی تجویز
پاکستان نے حالیہ باہمی کشیدگی کے تناظر میں بھارت کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی ثالثی قبول کرنے کا کہا ہے‘ تاہم بھارت اس آپشن پر غور کرنے پر تیار نہیں اور کشمیر کو دوطرفہ مسئلہ قرار دینے پر اصرار جاری رکھے ہوئے ہے۔ وزارت خارجہ کے سینئر عہدیدار نے ”دی نیشن“ کو بتایا کہ دونوں ملکوں نے بیک چینل رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں اور پاکستان نے بھارت کو کہا کہ وہ سربراہ اقوام متحدہ کی پیشکش قبول کر لے جو نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے۔ عہدیدار نے کہا بظاہر بھارت اس پیشکش پر غور کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس مسئلے پر دوسروں کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘ تاہم ہم بھارت پر ثالثی قبول کرنے کا دباﺅ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک اور عہدیدار نے کہا بھارت بان کی مون کو درمیان میں لانے سے اسلئے ہچکچا رہا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے مسئلہ کشمیر پر اس کا مو¿ قف کمزور ہے۔ انہوں نے کہا بان کی مون کی ثالثی کے ساتھ ہم زیادہ فائدہ حاصل کرنے والی پوزیشن میں ہونگے لہٰذا بھارت اس آپشن سے گریزاں ہے۔
آج پاکستان بھارت کشیدگی نکتہ عروج پر ہے۔ اس کا سبب مسئلہ کشمیر ہے۔ مسئلہ کشمیر پر طرفین تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا حل نہیں نکلتا تو مزید جنگیں ہو سکتی ہیں۔ تاہم جنگ مسئلے کا حل نہیں۔ دونوں ملک ایٹمی قوت ہیں جنگ کی صورت ناقابل تلافی تباہی و بربادی تو ہو سکتی ہے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکتا۔ اس کا بہترین حل اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں، جن پر بھارت عمل کرنے سے انکاری ہے۔ کل تک وہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرتا تھا، آج اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ کشمیری اس کے پنجہ¿ استبداد سے نکلنے کیلئے آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ بھارت اسے دہشتگردی قرار دیتا ہے اور پاکستان کو دہشتگردی کا پشت پناہ قرار دے کر اسے دنیا بھر میں بدنام کرتا اور کشمیر کا بدلہ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں چکانے کا اعتراف بھی کر چکا ہے۔
آج پاکستان بھارت میں جنگ کے بادل گہرے ہو چکے ہیں۔ بھارت اپنی فوجیں ایل او سی پر لے آیا ہے۔ قریب کے دیہات خالی کرالئے گئے ہیں۔ روزانہ کنٹرول لائن پر اشتعال انگیزی ہو رہی ہے۔ ان حالات میں فریقین میں سے کسی کی ذرا سی بھی بے احتیاطی جنگ کے شعلے بھڑکا سکتی ہے۔ دونوں طرف جنگ کی تیاری ہے۔ غیر روایتی جنگ کی صورت میں وہ خطہ جس کیلئے جنگ ہو گی اور جنگ لڑنے والے بھی ہو سکتا ہے صفحہ ہستی پر باقی نہ رہیں۔ بہتر نہیں کہ یہ مسئلہ پرامن طریقے سے حل کر لیا جائے۔ یہ بات بھارت کو سمجھانے کی ضرورت ہے مگر کون سمجھائے؟ یہ کام عالمی برادری کا ہے، اقوام متحدہ کا ہے۔
پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی کوششیں جنگ کی تیاری کے ساتھ ساتھ جاری ہیں۔ پاک فوج بھارت کی ممکنہ جارحیت کے مقابلے کیلئے کیل کانٹے سے لیس ہو رہی ہے۔ مسلح افواج پہلے ہی حالت جنگ میں ہیں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سٹرائیک کور منگلا کا گزشتہ روز دورہ کر کے آپریشنل تیاریوں کا جائزہ لیا۔ بھارت نے گزشتہ روز پھر لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کی جس کا فوج کی طرف سے بھرپور جواب دیا گیا۔ سیاسی قیادت فوج کے شانہ بشانہ ہے۔ گزشتہ روز پارلیمانی سربراہی اجلاس میں فوج کے ساتھ یکجہتی کا بھرپور اظہار کیا گیا۔ بلاشبہ آج بھارت کے ساتھ کشیدہ حالات میں پاک فوج، حکومت اور قوم ایک پیج پر ہیں۔ جنگ جیتنے کیلئے ایسا ہونا ناگزیر بھی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے اقوام متحدہ میں خطاب سے بھارت بوکھلا گیا۔ اسے سبوتاژ کرنے کیلئے بھارت نے پوری کوشش کی، حتیٰ کہ اوڑی ڈرامہ بھی رچایا مگر وزیراعظم پر عزم رہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران ان کا تحریک آزادی کے شہید مظفروانی کو خراج عقیدت پیش کرنا بھارت کیلئے ناقابل برداشت ہو گیا۔ ان کی شہادت نے جدوجہد آزادی کو نئی مہمیز دی۔ دنیا پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت آشکار ہوئی۔ بھارت اس سب کو دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھنا چاہتا ہے۔ ایل او سی پر فائرنگ کا سلسلہ اسی لئے جاری ہے اور سرجیکل سٹرائیک کا ڈرامہ اسی لئے رچایا گیا۔ مسئلہ کشمیر حل ہو جاتا ہے تو بھارت کو ایسی ڈرامہ بازیوں، کشمیر میں بے گناہ افراد کے قتل و غارت اور بھارت کی پاکستان میں مداخلت کا جواز ہی ختم ہو جاتا ہے۔
یو این او میں ایک تقریر چند ممالک کے سربراہوں اور پارلیمانی سربراہی اجلاس کے انعقاد سے حکومت کا فرض پورا نہیں ہو گیا۔ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو مزید فعال ہونا ہو گا۔ وزیر خارجہ کے نہ ہونے سے مضبوط خارجہ پالیسی تشکیل نہیں پا سکتی اور ان حالات میں صورت حال مزید مایوس کن ہو جاتی ہے جب وزیراعظم کی صحت بھی قابل رشک نہیں۔ ہمارے خارجہ امور کا یہ حال ہے کہ ہمارے دوست متحدہ عرب امارات کی طرف سے بھارتی ڈرامہ سرجیکل سٹرائیک کی حمایت کی گئی ہے۔ ایک طرف بھارت اور روس میں دوریاں بڑھ رہی ہیں اور پاک روس تعلقات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف روس بھی بھارتی جارحیت کو درست قرار دے رہا ہے۔
حکومت یقیناً مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بہت کچھ کر رہی ہے مگر معاملے کی حساس نوعیت مزید بہت کچھ کرنے کی متقاضی ہے۔ مسئلہ کشمیر ضرور حل ہونا چاہئیے مگر اس سوچ کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی کہ یہ مسئلہ کسی بھی طور حل کر لیا جائے۔ ایسی کوششیں مشرف کی طرف سے ہوتی رہی ہیں۔ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے خود مختار حل پر اتفاق ہو گیا تھا مگر بھارت میں حکومت کی تبدیلی کے بعد اس پر عمل نہ ہو سکا۔ اس کی تصدیق بھارتی وزیراعظم کے سابق میڈیا ایڈوائزر سنجے بارونے بھی اپنی کتاب میں ان الفاظ کے ساتھ کی ہے کہ بھارت اور پاکستان کی حکومتیں مسئلہ کشمیر کو لے کر مشرف دو رمیں چارنکاتی فارمولے کو عملی جامہ پہنانے پر متفق ہو چکی تھیں انہوں نے اپنی کتاب میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پس پردہ بات چیت کو آگے بڑھانے کیلئے وزیر اعظم ہند کے خصوصی ایلچی ستیندر لامبا اور ا±س وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشر ف کے مشیر خاص طارق عزیز نے متعدد میٹنگوں کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق چار مراحل پر مشتمل خاکہ مرتب کیا تھا جسے دونوں ملکوں کے سیاسی سربراہان کی منظوری بھی حاصل تھی۔
ایسا حل شاید قوم کیلئے ہضم کرنا مشکل ہوتا۔ اب پاکستان کی طرف سے بھارت کو بانکی مون کی ثالثی قبول کرنے کیلئے کہا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو اسے مسئلہ کشمیر پر حکومت کی تھکاوٹ کا اظہار ہی کہا جا سکتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادیں ہیں۔ اقوام متحدہ ان پر عمل کرانے کی پابند ہے۔ بانکی مون ثالثی کی پیشکش نہ کریں۔ پاکستان بھی ان پر توجہ نہ دے۔ بانکی کی ذمہ داری اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کرانا ہے۔ وہ اپنا فریضہ ادا کریں۔ مقبوضہ وادی میں بھارتی بربریت سے صرف نظر کرنا اقوام متحدہ کے ذمہ داروں کے ضمیر کو کیوں نہیں جھنجھوڑتا۔ بھارت نے اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کو مقبوضہ کشمیر میں آنے کی اجازت نہیں دی، اس پر بانکی مون بے بس کیوں دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت پر پابندیوں کی بات کیوں نہیں کرتے!!!