”گندے انڈوں “کی تیار کردہ مشترکہ قرارداد

رپورٹنگ کے دنوں میں جب سرکاری یا سیاسی سطح پر کوئی اہم اجلاس ہوتا تو”اندر کی بات“جاننے کا جنون سرپر سوار ہوجاتا۔ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ بغیر وقت لئے اس اجلاس میں شریک ہوئے کسی فرد کے گھر پہنچ جانے پر بھی شرمندگی محسوس نہ ہوتی۔

سیاست دانوں کو ،خواہ وہ کتنے ہی طاقت ور وزیر وغیرہ کیوں نہ ہوجائیں،اپنے گھروں کے دروازے لوگوں کے لئے کھلے رکھنا ہوتے ہیں۔ وہ آپ کے اچانک درآنے پر ناگواری کا تاثر نہیں دیتے۔منافقانہ مہمان نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلکہ چائے کے ساتھ اپنے علاقوںسے آئی کسی سوغات کو ”چکھنے“ پر بھی اصرار کرتے ہیں۔ ”اندر کی بات“ مگر ہرگز نہیں بتاتے۔بہت کوشش کے بعد رپورٹر بالآخر کوئی ایسی بات معلوم کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جو ”خبر“ کی بجائے اس سیاست دان کے کسی حریف کے لئے مشکل یا شرمندگی کا موجب بن سکے۔
اہم اجلاسوں میں موجود غیر سیاسی لوگوں کا رویہ اس ضمن میں البتہ کافی غیر جانبدارانہ ہوتا ہے۔ راز کو ”مقدس“ سمجھنا لیکن دنیا بھر کی بیوروکریسی کے ”مذہب“ کا حصہ ہے۔ افسروں تک رسائی ویسے ہی ناممکن حد تک دشوار ہوا کرتی ہے۔ ان سے ”اندر کی بات“ معلوم کرنا”لانا ہے جوئے شیر کا....“والا معاملہ ہے۔
مذکورہ بالا مشکلات کے ہوتے ہوئے پاکستانی صحافت پر کڑی پابندیوں کے دور میں بھی ہمارے رپورٹرز کسی نہ کسی صورت اپنا فرض نبھاتے رہے ہیں۔ فرض کرلیا گیا ہے کہ اب ہماری صحافت ضرورت سے زیادہ آزاد ہوچکی ہے۔ سمارٹ فونز اور جدید ترین مگر ہلکے پھلکے کیمروں سے ”مسلح“ رپورٹر نہایت مستعدی سے ہر پل کی خبر دینے کو بے چین نظر آتے ہیں۔
آزادی اور مستعدی کے اس دور میں بھی لیکن میں یہ جاننے میں قطعاََ ناکام رہا ہوں کہ وزیر اعظم نے پیر کے روز سیاسی جماعتوں کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیوں کیا تھا۔ وہ اس اجلاس کے ذریعے کیا حاصل کرنا چاہ رہے تھے۔ اگر کچھ حاصل کرنا مقصود تھا تو اپنے ہدف کے حصول کے لئے کسی وزیر یا سرکاری افسر کے ذمے کیا ذمہ داری لگائی گئی تھی۔ حکومت مخالف رہ نما اس اجلاس میں شریک ہونے پر کیوں تیار ہوئے۔ بالآخر اس اجلاس میں پہنچ گئے تو محض حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے پر اکتفا کیا یا ان میں سے چند ایک کے ذہن میں اپنے تئیں طے کردہ چند اہداف بھی تھے۔ اس کے بعد سوال یہ بھی ہے کہ کونسا حکومت مخالف رہ نما پیر کے روز ہوئے اجلاس کے اختتام پر اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
پیر کی صبح یہ کالم لکھنے کے بعد سے شام سات بجے تک میں اپنے گھر میں ریموٹ کے بٹن دباتامختلف چینلز کو بے قراری سے دیکھتا رہا ہوں۔ مجھے اپنے ذہن میں موجود کسی ایک سوال کا جواب بھی نہیں ملا۔ ٹھوس حقائق کو بھرپور تناظر میں جانے بغیر تبصرہ آرائی کے ہنر سے میں قطعاََ محروم ہوں۔ اپنے اس کالم میں پیر کے روز ہوئے اجلاس کے بارے میں لکھوں تو کیا لکھوں؟ ٹامک ٹوئیاں، ڈنگ ٹپائی اور یاوہ گوئی سے تین صفحے”نیلے‘ کرنا ہوں گے کیونکہ میں نیلے رنگ کی سیاہی سے لکھتا اور سیاہ قلم سے پروف ریڈنگ کرتا ہوں۔ اخبار کے لئے اگرچہ سیاہی کالی ہی استعمال ہوتی ہے۔
اپنی لاعلمی کا رونا روتے ہوئے اعتراف مجھے یہ بھی کرنا ہے کہ پیر کے روز ہوئے اجلاس کی روداد مختلف ٹی وی چینلوں پر دیکھتے ہوئے مجھے ایک بارپھر محترمہ بے نظیر بھٹو بے تحاشہ یاد آئیں۔ محمد خان جونیجو کے وزیر خارجہ زین نورانی صاحب کئی ہفتوں تک جنیوا میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہوئے مذاکرات کے ذریعے روس کو افغانستان کے بارے میں ایک سمجھوتہ کرنے پر آمادہ کرچکے تھے۔ جنرل ضیاءالحق مگر بضد رہے کہ مجوزہ معاہدہ نہ صرف افغانستان میں امن نہیں لاپائے گا بلکہ پاکستان اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ازبکستان اور تاجکستان جیسی ریاستوں کوبھی ”دائرہ اسلام“میں واپس لانے میں ناکام ہوجائے گا۔ جونیجو مرحوم کے اکثر وزراءمجوزہ معاہدے پر دستخط کرنے کے حامی تھے۔ اس کابینہ میں لیکن جنرل ضیاءکے وفادار بھی موجود تھے۔ ان تک خبر پہنچی تو ایک روز کابینہ کے ایک اجلاس میں جنرل ضیاءبذاتِ خود درآئے۔ وہاں انہوں نے زین نورانی کو مخاطب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں دھمکی دی کہ اگر اس معاہدے پردستخط ہوئے تو وہ اس وزیر کواس انداز میں پھانسی لگائیں گے جس انداز کا ذکر میں ”نوائے وقت“ جیسے سنجیدہ اور گھروں میں پڑھے جانے والے اخبار میں نہیں کرسکتا۔
جونیجو مرحوم کو احساس ہوا کہ انہیں اس معاہدے پر دستخط کرنے کی قوت حاصل کرنے کے لئے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت درکار ہے۔ انہوں نے ایک آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس کانفرنس کو بامقصد اور مو¿ثر بنانے کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو کی اس میں شرکت ضروری تھی۔ انہیں متعدد وسیلوں اور رابطوں کے ذریعے بالآخر قائل کرلیا گیا۔ محترمہ نے مجوزہ کانفرنس میں شرکت پر آمادگی کا اظہار کرنے کے بعد اسلام آباد آکر ڈیرے جما لئے۔ اس کانفرنس کے انعقاد کی صبح تک وہ مسلسل خارجہ اور دفاعی امور کے بارے میں رپورٹنگ اور تبصرے کرنے والے صحافیوں سے رابطے میں رہیں۔ کئی سابق فوجی اور سفارتی افسروں سے ان کی رائے معلوم کی۔ پھر اس کانفرنس کے لئے ایک تقریر کا متن تیار کیا۔
میں نے اس متن کو کئی بار دیکھا تھا جس میں بارہا تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ جونیجو مرحوم کی آل پارٹیز کانفرنس میں محترمہ کی جانب سے ہوئی اس تقریر کا متن آج بھی کہیں سے مل جائے تو اسے پڑھ کر احساس ہوگا کہ پیچیدہ ترین سفارتی مسئلے پر کوئی سیاستدان اپنی رائے کا اظہار کس انداز میں کرتا ہے۔ اس تقریر کی خوبی یہ بھی تھی کہ اسے جنرل ضیاءاور ان کے لاڈلوں نے اپنے مو¿قف کی تصدیق کے طورپر لیا۔ جونیجو مرحوم اور ان کے ساتھی محض اس بنیاد پر ہی شاداں وفرحاں رہے کہ محترمہ ان کی بلائی کانفرنس میں شریک ہوکر درحقیقت جنرل ضیاءکے مقابلے میں ”ان کے ساتھ“ کھڑی ہوگئی ہیں۔
میں آج بھی یہ بات دہرانے پر بضد ہوں کہ عمران خان کو پیر کے روز ہوئے اجلاس میں بذاتِ خود حصہ لینے کے لئے نواز حکومت کو ہر ممکن طریقہ استعمال کرنا چاہیے تھا۔ پاک-ہند تعلقات میں اُبھرتی ہوئی حالیہ کشیدگی ماضی میں ہوئی ایسی کشیدگیوں کے مقابلے میں کئی حوالوں سے بہت مختلف ہے۔ اب تک یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ چونکہ پاکستان اور بھارت ایٹمی قوتیں بن چکی ہیں لہذا ان دو ممالک کے مابین جنگ ناممکن ہوچکی ہے۔
ایٹمی امکانات کے تناظر میں پاک-بھارت جنگ کو ناممکن قرار دینا مجھے ذاتی طورپر اگرچہ کبھی بھی ہضم نہیں ہوا۔ ایسا کرتے ہوئے ہم اکثربھول جاتے ہیں کہ امریکہ اور بھارت مہلک ترین ایٹمی ہتھیار سے لیس تھے مگر ایک دوسرے کے ہمسایے نہ تھے۔ ان دونوں کے مابین براہِ راست جنگ یقینا نہیں ہوئی۔ افغانستان میں لیکن ایک جان لیوا معرکہ کئی برسوں تک برپا رہا۔ افغان اس جنگ کا ایندھن بنے۔ پاکستان استعمال ہوا۔ سوویت یونین امریکہ کی ہم پلہ قوت ہوتے ہوئے بھی ٹوٹ پھوٹ کر”روس“ تک محدود ہوگیا۔ افغانستان کو مگر آج بھی قرار نصیب نہیں ہوا اور مشکلات پاکستان کی بھی روزبروز دگرگوں ہوتی جارہی ہیں۔
پاکستان اور بھارت ایٹمی قوت بن گئے تو ان کے مابین قائم ہوئے Nuclear Balanceنے امن کے راستے نہیں بنائے۔ جنرل مشرف بلکہ کارگل کی پہاڑیوں سے سری نگر پہنچنے کا راستہ ڈھونڈنا شروع ہوگئے۔ انہیں یہ راستہ تو نہ ملا۔ پاکستان کے سرپر لیکن ایک ”غیر ذمہ دار“ ایٹمی قوت کی تہمت ضرور لگ گئی۔ ہم آج بھی اس تہمت سے جان نہیں چھڑاپائے ہیں۔
دو ٹکے کا رپورٹر ہوتے ہوئے بھی میرا اصرار ہے کہ کشمیر پر قائم ہوئی لائن آف کنٹرول کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے بھارتی حکومت کی جانب سے Surgical Strikesکے دعوے اسے اب دنیا کے روبرو ایک غیر ذمہ دار ایٹمی قوت کے طورپر پیش کرسکتے ہیں۔ برہان وانی کی وحشیانہ ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں بپھری احتجاجی لہر نے مودی کی ”انسان دوستی“ ویسے ہی بے نقاب کرڈالی ہے۔ ہماری اشرافیہ کے پاس مگر ان واقعات کو مو¿ثر انداز میں دنیا کے روبرو رکھنے کی لگن اور سکت موجود نہیں رہی۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراط ِ عصر نے تو ویسے بھی رعونت سے اعلان کردیا ہے کہ پیر کے روز ”رنگے ہاتھوں“ پکڑے گئے ایک شخص کے ساتھ پاکستان کے سارے ”گندے انڈے“یکجا ہوگئے تھے۔ جن ”گندے انڈوں“ کو پاکستان ہی کے ایک بقراط نے بے نقاب کرڈالا ان کی جانب سے تیار ہوئی ”مشترکہ قرارداد“ کو دنیا سنجیدگی سے کیوں لے گی؟!

ای پیپر دی نیشن