اسلام آباد(آن لائن) پبلک اکاؤنٹس کی ذیلی کمیٹی نے وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کو ہدایت کی ہے کہ اسلام آباد کے سرکاری مکانوں اور ان میں رہائشی پذیر افراد کا ڈیٹا مکمل کرکے 3ماہ کے اندر رپورٹ جمع کروائی جائے۔ کمیٹی کے کنوینئر سردار عاشق گوپانگ نے کہا افسوس کی بات ہے کہ وزارت کے پاس مکانوں کا ریکارڈ نہیں ہیں اور کئی سال پرانے ریکارڈ کو بھی اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا، اسٹیٹ آفس میں غیر قانونی طور پر این او سی جاری کرنے والے افسروں کے خلاف انکوائری کرکے رپورٹ پیش کی جائے، پبلک اکاؤنٹس کی ذیلی کمیٹی تھری کا اجلاس کنوینر سردار عاشق حسین گوپانگ کی زیر صدارت گزشتہ روز پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا اس موقع پر وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور وزارت قومی صحت کے آڈٹ پیرا 2008-9کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں آڈٹ حکام نے بتایا کہ پشاورمیں جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر میں 18 کروڑ روپے منظوری کے بغیر بڑھائے گئے۔ کمیٹی نے اس معاملے کی تحقیقات کا بھی حکم دیا تھا، تاہم تحقیقات میں تاخیر کی گئی۔ وزارت ہائوسنگ حکام نے کہا کہ تعمیری لاگت سامان کی قیمت بڑھنے سے زیادہ ہوئی، تحقیقات ہوئیں تھیں تاہم غفلت کا ایک ذمہ دار ریٹائر ہوگیا جبکہ دوسرے کا 2 سال قبل ایکسیڈنٹ ہوا اور اب اس کا دماغی توازن درست نہیں۔ سردار عاشق گوپانگ نے کہا کہ ایک سال تک تحقیقات کیوں نہیں کی گئیں، کیا ایکسیڈنٹ کا انتظار کیا جاتا رہا، 3 ماہ میں ملک بھر میںوزارت کی پراپرٹی، رہائش کی مد میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین کے ذمے بننے والے واجبات کی تفصیلات اور آئندہ کرایے وصولی کیلئے جامع میکنزم بنا کر رپورٹ پیش کی جائے۔ جبکہ وزارت کی مجموعی اراضی بارے معلومات نہ ہونے پر کمیٹی نے سیکرٹری ہاوسنگ اینڈ ورکس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے 90 روز میں وزارت کی ملک بھر میں پراپرٹی کی تفصیلات طلب کرلیں۔ عذرا فضل نے کہا کہ واجبات کو اپ ڈیٹ کرنے کا سسٹم موجود نہیں، یہ اے جی پی آر کا نہیں وزارت ہائوسنگ کا مسئلہ ہے۔ سردار عاشق گوپانگ نے کہا کہ محکمانہ غفلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا، پارلیمنٹرین ایک ہزار روپے کا ڈیفالٹر ہو تو صادق، امین نہیں رہتا، نااہل ہوجاتا ہے، سرکاری افسران پر یہ اصول لاگو کیوں نہیں ہوتا۔