روضۂ رسولﷺ پر آتے ہی آنکھوں کو جو ٹھنڈک اور دل کو جو سکون حاصل ہوتا ہے اسے بس محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ ذات باری تعالیٰ نے سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ کو ہر دوعالم کے لئے رحمت بنا کر انہیں نبی ٔ آخرالزمان کے بلند منصب پر سرفراز کیا تو خالقِ کائنات کی جانب سے اپنی مخلوق کے لئے یہ اٹل پیغام تھا کہ محسنِ انسانیتؐ اس کرہ ارض پر امن و آشتی کی علامت اور ضمانت ہیں، پھر ان کے ذریعے خالق کائنات ربِ کعبہ کے ودیعت کئے گئے دین اسلام کا ناطہ بھلا ننگ انسانیت دہشت گردی کے ساتھ کیسے جوڑا جا سکتا ہے۔ پاک سعودی دھرتی پر قیام کے دوران یہ تجسس بھی میرے معمولات کا حصہ بنا رہا اور مدینہ منورہ کی خاک طیبہ جس کے ذرے ذرے میں شفا ہے، جو ہماری آنکھوں کا نور ہے اور ہمارے دلوں کی کشادگی کا باعث بننے والا سرور ہے، اسے انسانی خون سے رنگین کیا جائے، ’’ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی‘‘ دل نے بے ساختہ گواہی دی۔ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ غلامانِ محمدؐ کے خمیر میں، ضمیر میں ایسی بدبختی کہیں سما بھی نہیں سکتی۔ یہ حقیقت ہے۔ اٹل حقیقت کہ غلامانِ محسن انسانیت تو امن و آشتی کے سوا کسی دوسری زبان، کسی دوسرے لہجے، کسی دوسرے رنگ سے آشنا ہی نہیں ہیں۔ پھر یہ فتنے کون اٹھاتا ہے اور غلامانِ محمدؐ عربی کو فرقوں کے نام پر کون لڑاتا ہے۔ علامہ اقبال کا بھی یہی تجسس رہا کہ…؎
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
مدینہ منورہ میں تین روز کے مختصر قیام کے دوران ہماری کوشش یہی رہی کہ جتنی بھی ساعتیں روضۂ رسولؐ پر مسجد نبوی میں گزار لی جائیں، وہی زندگی کے اگلے مقامات سود و زیاں میں زاد راہ بن پائیں گی۔ اس ناطے سے میرا اور حبیب اللہ سلفی کا ایک ہی پروگرام بنا رہا۔ مسجد نبوی کی چھت پر نمازِ جمعتہ المبارک کی ادائیگی کا سرور ہی کچھ اور تھا، ہم کچھ دیر کے لئے ہوٹل واپس گئے مگر بے چین روح کے ساتھ پھر مسجد نبوی میں آن بیٹھے۔ اس مسجد کی وسعت ایسی کہ بیک وقت تین چار لاکھ آدمی سما جائیں، مسجد میں ہونے والی ترکوں کے دور کی کشیدہ کاری دیدنی ہے اور پھر مسجد کی چھت کے بعض حصے تازہ ہوا اور سورج کی حدت و تمازت کو راستہ دینے کے لئے بطور روشن دان استعمال کئے جاتے ہیں تو وہ منظر کسی اور ہی دنیا میں لے جاتا ہے۔ روضۂ رسولؐ پر حاضری کے وقت ہر بندۂ خدا اور ہر غلامِ محمدؐ کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے ریاض الجنت کے مقام پر دو نفل نماز کی ادائیگی کا موقع مل جائے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت نبیٔ آخرالزمان منبر پر بیٹھ کر اپنے خطبہ سے صحابہ کرام کے دل منور کیا کرتے تھے سو یہ مقام سب سے متبرک ٹھہرا ہے جبکہ میرے نزدیک ہادیٔ برحق حضرت محمد مصطفیٰؐ کے پائوں کے نیچے آنے والا اس مقدس دھرتی کا ہر حصہ متبرک ہے اور خاک مدینہ کو ذاتِ باری تعالیٰ نے اسی مناسبت سے شفا کا ذریعہ بنا دیا ہے۔
ہم مسجد نبویؐ میں بیٹھے کیف و سرمستی میں ڈوبے رہے۔ میو ہسپتال لاہور کے شعبہ جراحی کے سربراہ ہمارے پیارے دوست پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل بھی فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مدینہ منورہ میں موجود تھے۔ میں نے انہیں فون کیا تو انہوں نے مسجد نبوی میں ہی اپنی موجودگی کی اطلاع دی۔ سو نماز مغرب کے وقت ہماری ملاقات کی سبیل بن گئی، انہوں نے یہاں بھی اپنی مجلس یاراں بنا رکھی تھی، نماز مغرب کے بعد وہ ہمیں اپنے ہوٹل میں لے گئے جو روضۂ رسولؐ کے عین سامنے تھا۔ بس چند قدموں کے فاصلے پر۔ ہم مسجد نبوی کے صحن سے باہر نکل کر سڑک پر آئے تو ڈاکٹر گوندل نے ہمیں سڑک کے ایک حصے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے متوجہ کیا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں ماہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ایک بدبخت نے خودکش حملہ کیا تھا۔ اس جگہ کے عین سامنے وہ ہوٹل تھا جہاں ڈاکٹر گوندل اپنے پورے گروپ کے ساتھ مقیم تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس سفاکانہ دہشت گردی کے حوالے سے مقامی باشندوں سے سنی ہوئی باتیں میرے ساتھ شیئر کیں اور سعودی حکومت کے حسن انتظام کی توصیف کی کہ اس سفاکانہ واقعہ کی کسی کو بھنک تک نہیں پڑنے دی گئی جس کے باعث اس واردات کے بعد معمولات زندگی برقرار رہے اور کہیں پر بھی افراتفری اور خوف و ہراس کی فضا قائم نہ ہو پائی۔ بعدازاں ہمارے دوست جاوید اقبال بٹ نے بھی اس سعودی حسنِ انتظام کی تصدیق و توصیف کی اور بتایا کہ اس واقعے کے بعد مقامی لوگوں کو صرف یہ اطلاع دی گئی تھی کہ گیس کا سلنڈر پھٹنے سے معمولی سا دھماکہ ہوا ہے جس سے کسی قسم کا جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا، مگر خود کو روضۂ رسولؐ کے پاس پہنچ کر دھماکے سے اڑانے والے بدبخت کے عزائم تو کچھ اور ہی تھے۔ اس روز بیک وقت سعودی شہر خطیف اور جدہ میں بھی دہشت گردی کی وارداتیں ہوئیں تو محسنِ انسانیت کے سلامتی والے دین اسلام پر دہشت گردی کا ناپاک دھبہ لگانے کی کوشش کرنے والے ملعونوں نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ میں نے اپنے گزشتہ روز کے کالم میں فرقہ ورانہ دہشت گردی کے حوالے سے مرحوم اشفاق احمد کی ایک چشم کشا تحریر شیئر کی ہے تو محمد عربیؐ کے ہر امتی و غلام کو یہ اپنے دل سے اٹھی آواز محسوس ہوئی ہے۔ ہمیں مدینہ منورہ کی پاک دھرتی پر پل پل ٹھنڈک، امان، سکون و راحت اور توقیر و شرفِ انسانیت کا احساس ہوتا رہا اور دعا گو رہے کہ محسنِ انسانیت کے دین کامل کو دہشت گردی کے لیبل سے داغدار کرنے والے بدبخت اپنے مکروہ مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہو پائیں۔ مگر صاحب! ہمیں اپنے ذہنوں میں بھی تو کشادگی لانا ہے جس کے لئے ہمیں محسنِ انسانیت کے اسوۂ حسنہ کو ہی پیش نظر رکھنا ہو گا اور پھر ہمارے پاس قرآن مجید کی صورت میں آفاقی کتاب ہدایت موجود ہے جو مکمل ضابطہ حیات بھی ہے۔ اس سے روشنی لیتے رہیں تو ہمارے لئے فرقہ بندیوں والے بھٹکاوے کی نوبت ہی نہ آئے۔
شومی ٔ قسمت سے اگلے روز نماز مغرب کے بعد ہمیں جنت البقیع کے مشاہدے کا بھی موقع مل گیا۔ جس سے ہم اڑھائی سال قبل اس لئے محروم رہے تھے کہ بعض شورش پسندوں کے دنگا فساد کے باعث جنت البقیع اور مقام احد سمیت متعدد مقدس مقامات کو سعودی منتظمین نے سربمہر کر دیا ہوا تھا، جنت البقیع میں قبریں تو کہیں نہیں تھیں بس چھوٹے چھوٹے پتھروں کے ڈھیر لگا کر قبروں کے نشان ضرور بنائے گئے ہیں۔ اس وسیع و عریض قبرستان میں چلتے چلتے تھکاوٹ کا احساس اجاگر ہونے لگا۔ لوگ جوق در جوق جنت البقیع میں داخل ہو رہے تھے اور احیائے اسلام کی عظمتوں، عزیمتوں کو اپنے تصورات میں سموئے اپنی آخرت و عاقبت کی فکر میں ڈوبے نظر آتے تھے۔ کچھ ایسے ہی تصورات مقام احد پر بھی صحابہ کرام کی قبروں کے نشانات دیکھ کر دل میں جاگزیں ہوئے جبکہ مسجد قبا اور مسجد قبلتین میں نوافل کی ادائیگی خاک طیبہ کو آنکھوں سے لگائے رکھنے کا اہتمام کر گئی۔ جنگ خندق کے مقدس مقام تک ہمیں پہلے ہی جاوید اقبال بٹ لے گئے تھے جبکہ غار حرا کے مقام تک پہنچنے کی اس بار سعادت حاصل نہ ہو سکی کہ ہمارے مقامی منتظمین نے ہماری مصروفیات کا شیڈول بہت ٹائیٹ رکھا ہوا تھا۔ سو اڑھائی سال قبل اپنی اہلیہ کے ہمراہ عمرہ کی ادائیگی کے وقت خاکِ مدینہ سے شفایابی کی تاثیر لیتے ہوئے غار حرا کے مشاہدے سے سرفراز ہونے والے لمحات کو ہی زادِراہ بنائے رکھا۔
(جاری)
لبیک اللھم لبیک۔ (6)
Oct 05, 2016