اسلام آباد (ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے محکمہ شماریات کو مردم شماری کے انعقاد سے متعلق بریفنگ دینے کا حکم دیدیا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ریاست کی منصوبہ بندی اور ترقی کا دارومدار مردم شماری پر ہوتا ہے، کچھ لوگ چاہتے ہیں ملک میں غربت کا خاتمہ نہ ہو اور خوشحالی نہ آئے۔ بتایا جائے تاخیر کا ذمہ دار کون ہے حکومت بتائے اس نے کیا اقدامات کئے۔ حکومتی وکیل نے بتایا کہ مردم شماری کا آغاز مارچ 2017 سے ہوگا، چیف جسٹس کی ہدایت پر مردم شماری کیلئے بنائے فارم میں انصاف کی فراہمی کی بہتری کی تجویز کا کالم بھی شامل کیا گیا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں مردم شماری کے ذریعے مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے، مردم شماری میں تاخیر کے ذمہ دار کون ہیں، مردم شماری کے اثرات پورے ملک میں پڑیں گے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ لگتا ہے حکومت مردم شماری کرانے کا ارادہ نہیں رکھتی، حکومت جی ڈی پی کا تعین 1999 کی مردم شماری کررہی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ مردم شماری مفاد عامہ کا معاملہ ہے،کیا مردم شماری کرانا ریاست کی ترجیحات میں شامل ہے۔ مردم شماری سے پتہ چلے گا کتنے ہسپتالوں کی ضرورت ہے، کتنے تعلیمی ادارے چاہئیں، کتنے بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ دنیا میں شوگر کے مریضوں کی تعداد کے تعین کے لیے مردم شماری کرائی جاتی ہے، مردم شماری کرانے کیلئے ابھی تک اتفاق رائے ہی پیدا نہیں ہوا۔ سیکرٹری شماریات آصف باجوہ نے کہا کہ ہمیں مردم شماری کرانے کیلئے ایک لاکھ 65 ہزار فوجی جوانوں کی ضرورت ہے،جبکہ 1 لاکھ 65 ہزار سکول ٹیچرز درکار ہونگے، ہماری طرف سے مردم شماری کیلئے تمام انتظامات مکمل ہیں لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں فوج دستیاب نہیں ہے، وزارت دفاع نومبر اور دسمبر 2016 میں فوج کی دستیابی کے بارے میں آگاہ کرے گی، قابل بھروسہ، شفاف اور سیکورٹی کیلئے فوج کی شمولیت لازمی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم مردم شماری کے دوران محفوظ سکیورٹی کی اہمیت سے آگاہ ہیں ہمیں علم ہے خدانخواستہ مردم شماری کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ عدالت نے کہا کہ مردم شماری کی ساکھ ضروری تاہم تاخیر درست نہیں جی ایچ کیو سے رابطہ کر کے فوج کی دستیابی سے متعلق آگاہ کیا جائے۔