اگر امریکہ نے حقائق کا ادراک نہ کیا تو پھر اس کیلئے ”نومور“ کی پالیسی پاکستان کی مجبوری ہوگی

ٹرمپ انتظامیہ کا پاکستان کیلئے ”ڈومور“ کی پالیسی کا تسلسل اور وزیر خارجہ کا دورہامریکہ

امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا ہے کہ پاکستان کی نان نیٹو اتحادی کی حیثیت ختم کرنا آپشن ہو سکتا ہے تاہم پاکستان کو ایک موقع اور دینگے۔ گزشتہ روز واشنگٹن میں امریکی کانگرس کو امریکی فوجیوں کی افغانستان میں تعداد بڑھانے کے حوالے سے بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پاکستان کے کردار کا فیصلہ ”مضبوطی“ سے کرینگے تاکہ اسلام آباد نیٹو کے مطالبات سن سکے اور دہشت گرد گروپوں کو قابو کرسکے۔ انکے بقول امریکی صدر ٹرمپ کی نئی افغان حکمت عملی کا نیٹو اور خطے کے رہنماﺅں کی طرف سے متفقہ طور پر خیرمقدم کیا گیا ہے‘ پاکستان کو نیٹو کے مطالبات سننے چاہئیں اور انہیں تسلیم کرنا چاہیے۔ انہوں نے انتباہ کیا کہ افغانستان سے انخلاءہمارے لئے خطرناک ثابت ہوگا اور ایسے خطرے کو دعوت ہم خود دینگے۔ انکے بقول یہ بات وہ انٹیلی جنس کمیونٹی کے تجزیے کی بنیاد پر کررہے ہیں۔ انہوں نے امریکی سینٹ میں صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ امریکہ کے مفاد میں ہے‘ ٹرمپ کو اسے برقرار رکھنے پر غور کرنا چاہیے اور اگر تصدیق ہو کہ ایران معاہدے کی پاسداری کررہا ہے تو اس معاہدے کو یقیناً برقرار رکھا جانا چاہیے۔ امریکی نائن الیون کے بعد پاکستان کا نان نیٹو اتحادی کا کردار جارج ڈبلیو بش جونیئر کے دورحکومت میں متعین ہوا تھا جس کے بعد پاکستان کے اسی کردار میں جو امریکی فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر معروف ہوا‘ ڈیموکریٹ باراک اوبامہ کے بھی دو ادوار گزرے‘ اس وقت بھی پاکستان سے ڈومور کے تقاضے ہوتے رہے اور پاکستان کے اندر امریکی فضائی اور زمینی اپریشن بھی ہوئے جن میں اسامہ بن لادن کیخلاف امریکی ایبٹ آباد اپریشن بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں سردمہری اور کشیدگی کی فضا بھی پیدا ہوتی رہی جبکہ ایک موقع پر تو نیٹو گن شپ ہیلی کاپٹروں کے پاکستان کی سلالہ چیک پوسٹوں پر حملے کے ردعمل میں پاکستان کی جانب سے نیٹو سپلائی بھی معطل کردی گئی اور نیٹو جہازوں کیلئے پاکستان کے ایئربیسز کا استعمال بھی روک دیا گیا‘ اسکے باوجود پاکستان‘ امریکہ تعلقات میں اتنی کشیدگی پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی جتنا ری پبلکن ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد دہشت گردی کی جنگ کے حوالے سے انکی اختیار کی گئی پالیسیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے۔ ٹرمپ کی ان پالیسیوں کے باعث پاکستان عملاً اپنی سلامتی کو سخت خطرات میں گھرا ہوا محسوس کررہا ہے کیونکہ واشنگٹن انتظامیہ اور خود ڈونلڈ ٹرمپ جس انداز میں پاکستان سے ڈومور کے تقاضے کرتے ہوئے اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور اسکے برعکس پاکستان کی سلامتی کے درپے بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دے کر اسکے ساتھ ایٹمی‘ جنگی اور دفاعی تعاون کے معاہدے کر رہے ہیں‘ اسکے پیش نظر پاکستان کی سلامتی کو بلاشبہ سخت خطرات لاحق ہیںاور تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق پاکستان ٹرمپ انتظامیہ کو یہ باور کرانے پر بھی مجبور ہوگیا ہے کہ Enough is Enough۔ اب ”ڈومور“ کا کوئی تقاضا پورا نہیں کیا جائیگا۔ اسی تناظر میں امریکہ کو باور کرایا جارہا ہے کہ اب ہماری جانب سے "No More" ہے۔ گزشتہ روز حکمران مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل کے اجلاس میں بھی وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے اپنے خطاب کے دوران امریکہ کو یہی باور کرایا کہ اب ہمارے لئے ”ڈومور“ نہیں ہوگا بلکہ ہماری جانب سے ”نومور“ ہوگا۔ یہ صورتحال پاکستان امریکہ تعلقات میں سخت کشیدگی اور بدترین سردمہری کی غمازی کرتی ہے جس کیلئے فضا یقینی طور پر امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے تحت ری پبلکن انتظامیہ نے خود استوار کی ہے۔ اس سلسلہ میں ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی پاکستان کو دہشت گرد تنظیموں کو تحفظ فراہم کرنے کا موردالزام ٹھہرانا شروع کردیا تھا جو درحقیقت پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا اس کیخلاف زہریلا پراپیگنڈا ہے۔ ٹرمپ نے بعدازاں امریکی صدر کے طور پر اپنے اس انتخابی منشور کو ہی واشنگٹن انتظامیہ کی پالیسیوں کا حصہ بنالیا اور امریکہ کی اپنی پالیسیوں کے تحت دنیا بھر میں پھیلی ہوئی دہشت گردی کو اسلامی دہشت گردی قرار دے کر اسے مسلمانوں اور پاکستان کے ساتھ منسوب کردیا اور قطع نظر اسکے کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان نے نیٹو ممالک سے بھی زیادہ جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں‘ اسے بھارتی لب و لہجے میں حقانی نیٹ ورک اور دوسری کالعدم تنظیموں کی سرپرستی کرنے کا موردالزام ٹھہرا کر باور کرایا جانے لگا کہ اگر ان کالعدم تنظیموں کیخلاف مو¿ثر کارروائی عمل میں نہ لائی گئی تو پھر اسکی سپورٹ فنڈ سے ملنے والی گرانٹ معطل یا کم کردی جائیگی یا سرے سے روک لی جائیگی اور اسکے ساتھ ساتھ اس کا نان نیٹو اتحادی کا ٹائٹل بھی واپس لے لیا جائیگا۔ اسی تناظر میں امریکی صدر ٹرمپ نے واشنگٹن انتظامیہ کی نئی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کو براہ راست دھمکی دی کہ اگر اس نے ”ڈومور“ کا تقاضا پورا نہ کیا تو امریکہ پاکستان میں ڈرون حملے بھی بڑھا دیگا اور پاکستان کے اندر دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہوئے خود بھی حملے کریگا۔ یہ درحقیقت پاکستان کی سلامتی پر حملہ آور ہونے کی براہ راست دھمکی تھی جس پر دفتر خارجہ پاکستان کی جانب سے امریکی سفیر کو طلب کرکے سخت احتجاج بھی کیا گیا اور ٹرمپ انتظامیہ کو ”نومور“ کا پیغام بھی بھجوادیا گیا۔ پاکستان امریکہ تعلقات میں سردمہری کی یہ فضا بھارتی وزیراعظم مودی کے دورہ¿ واشنگٹن کے دوران زیادہ استوار ہوئی جب ٹرمپ نے مشترکہ پریس کانفرنس میں مودی کو اپنے ساتھ بٹھا کر پاکستان کے ساتھ دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ پاکستان کے سخت ردعمل کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ کے پاکستان سے ”نمٹ لینے“ والے رویے میں کمی نہیں آئی اور ٹرمپ کے علاوہ واشنگٹن اور پینٹاگون کے دوسرے حکام نے بھی پاکستان کے بارے میں ایسا ہی لب و لہجہ اختیار کیا ہوا ہے۔ گزشتہ روز امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل جوزف ڈنفورڈ نے اسی تناظر میں پاکستان کی مو¿ثر ترین انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی پر براہ راست یہ الزام عائد کردیا ہے کہ اسکے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط ہیں جبکہ پاکستان کی یہی ایجنسی دہشت گردوں کیخلاف مو¿ثر اپریشن کیلئے امریکہ کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت انٹیلی جنس شیئرنگ کرتی رہی ہے۔ اگر اس وقت آئی ایس آئی کا یہ کردار امریکہ کو مفید نظر آتا تھا تو اب اسکے کردار پر امریکی بدگمانیوں کا اظہار چہ معنی دارد؟ اس حوالے سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے امریکی ترجیحات یکسر تبدیل ہوگئی ہیں اور وہ اب افغانستان میں امن کیلئے پاکستان کے بجائے اسکے مکار دشمن بھارت کو ترجیح دے رہا ہے جو درحقیقت افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کررہا ہے۔ ٹرمپ مودی مشترکہ اعلامیہ کے بعد جس طرح امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے گزشتہ ماہ اپنے دہلی اور کابل کے دورے کے دوران پاکستان کے بارے میں دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا اور اب جس طرح جنرل جوزف ڈنفورڈ نے پاکستان کو براہ راست دھمکی دی ہے کہ اس نے دہشت گردوں کیخلاف سخت ایکشن کا تقاضا پورا نہ کیا تو ٹرمپ انتظامیہ اس کیخلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ اسکی روشنی میں پاکستان کے فرنٹ لائن اتحادی والے کردار میں مزید کسی پیش رفت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ کم و بیش 14 سال پر محیط نیٹو کی افغان جنگ میں امریکہ کو کوئی کامیابی نہیں ہوئی تو اس میں امریکی پالیسیوں کا اپنا عمل دخل ہے جبکہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ وہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔ اب پاکستان کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کی اختیار کردہ امریکی پالیسی کی روشنی میں تو افغان جنگ میں پاکستان کے کسی کردار کی گنجائش ہی نہیں رہی‘ تاہم پاکستان اپنے مکار دشمن بھارت کے ہاتھوں اپنی سلامتی کو لاحق سنگین خطرات کی بنیاد پر اپنے دفاع کے تقاضے نبھاتے ہوئے فوری طور پر امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ترک کرنے کی بھی پوزیشن میں نہیں کیونکہ اسے ایف 16 سمیت جس جنگی سازوسامان کی ضرورت ہے‘ وہ امریکہ کے سوا اور کہیں سے نہیں مل سکتے۔ اس کیلئے یا تو مسئلہ کشمیر حل ہونے سے بھارت کے ہاتھوں پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات ٹل جائیں جس کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ امریکی سرپرستی میں بھارت اب پہلے سے بھی زیادہ بدمست ہوگیا ہے یا پھر امریکہ کو احساس ہو جائے کہ پاکستان کی معاونت کے بغیر وہ افغان جنگ میں کبھی سرخرو نہیں ہو سکتا جو حقیقت بھی ہے۔ یہی دو آپشنز ہیں جن کی بنیاد پر امریکہ اور پاکستان کے مابین سردمہری کی فضا کے باوجود تعلقات استوار رہ سکتے ہیں۔ اس بارے میں دونوں جانب کے خارجہ امور اور سٹریٹجیکل ماہرین کو سرجوڑ کر سوچ بچار کرنا ہوگی۔ وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف اس وقت دورہ امریکہ پر ہیں جہاں انکی امریکی وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر کے ساتھ ملاقاتیں طے ہیں اس لئے یہی بہترین موقع ہے کہ دونوں ممالک کے قائدین اصل حقائق اور ایک دوسرے کی ضرورتوں کا ادراک کرتے ہوئے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کریں تاکہ دہشت گردی کی جنگ میں ٹھوس کامیابی حاصل کی جاسکے۔ اگر امریکہ کی جانب سے پاکستان کو بدستور موردالزام ٹھہرایا جاتا رہا تو پھر احسن اقبال کی اعلان کردہ ”نومور“ کی پالیسی ہی پاکستان کی مجبوری بنے گی۔ اس میں امریکہ کو کتنا نقصان ہوگا‘ اس کا ٹرمپ انتظامیہ کو خود ہی اندازہ لگالینا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن