مشکلات سے نبردآزماہوکر آگے بڑھنے کا فیصلہ

اسلام آباد …… نواز رضا

پاکستان کی سیاسی و پارلیمانی تایخ کا اہم واقعہ یہ ہے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کو ’’نااہلی‘‘ کے دو ماہ بعد ہی دوبارہ 4سال کے لئے پاکستان مسلم لیگ(ن) کاصدر منتخب کر کے تمام قوتوں کو باور کرادیا گیا ہے کہ ان کو اقتدار سے تو نکالا جا سکتا ہے لیکن پارٹی کی صدارت نہیں چھینی جاسکتی۔ جنرل پرویز مشرف کے بنائے ہوئے جس ’’ قانون ‘‘ کے تحت پارٹی کی صدارت کے لئے نااہل قرار دیا گیا تھا اس کے پرخچے اڑا کر اس کا بنایا ہوا قانون اس کے منہ پر دے مارا اور بین السطور ان قوتوں کو کو یہ پیغام بھی دے دیا ہے ’’تم مجھے بے دخل کرو گے عوام مجھے داخل کرتے رہیں گے ‘‘ انہوں نے چاروں ڈکٹیٹروں کی’’ آئین شکنی ‘‘کو جائز قرار دے کر غیر مشروط حلف اٹھانے والی عدلیہ کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنا یا ۔ انہوں نے ’’ہتھ ہولہ ‘‘ رکھنے والے پارٹی کے ساتھیوں کو بھی ٹکا سا جواب دے دیا انہوں نے اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ ’’ میرے دل میں بھی غصہ ہے اور اگر میں یہ بات نہ کہوں تو یہ منافقت ہو گی مجھے منافقت آتی ہے اور نہ ہی میں منافقت پسند کرتا ہوں ‘‘ انہوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق کی ’’شاعری‘‘ کا جواب اپنی زنبیل سے چٹ نکال کر دیا اور اپنی آئندہ پالیسی کا اعلان ان اشعار میں کر دیا۔
؎ دل بغض و حسن سے رنجور نہ کر
یہ نور خدا ہے اسے بے نور نہ کر
نا اہل و کمینے کی خوشامد سے
تجھ کو جنت بھی ملے قبول نہ کر
مرکزی جنرل کونسل کے اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے میاں نواز شریف کو اہم مشورہ دے ڈالا جس کی گونج سیاسی حلقوں میں سنائی دے رہی ہے انہوں نے بھری محفل میں میں میاں نواز شریف سے کہا کہ ’’ پارٹی سے مشاورت کریں اور پھر اس پر فیصلے کریں "کچھ لوگوں نے گاڑی ور وزارت کیلئے غلط مشورے دیئے ۔ اس طرح پہلی بار یہ بات منظر عام آگئی چوہدری نثار علی خان جس نکتہ نظر کے حامی ہیں وہی نکتہ نظر میاں شہباز شریف کا ہے گویا انہوں نے ’’ مٹھی بھر مشیروں ‘‘ کو پارٹی قائد غلط مشورے دینے پر نرم الفاظ میں ’’شٹ اپ‘‘ کال دی ہے۔ پارٹی کی مرکزی جنرل کونسل کے اجلاس میں چوہدری نثار علی خان کی شرکت سے ان نام نہاد تجزیہ کاروں کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جو پچھلے دو ماہ سے چوہدری نثار علی خان اور میاں نواز شریف کے راستے الگ ہونے کی ’’پیشگوئیاں ‘‘کر رہے تھے ۔ چوہدری نثار علی خان نے نہ صرف میاں نواز شریف کو پارٹی کا صدر منتخب ہونے پر پرجوش انداز میں مبار ک باد دی بلکہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو الوداع کہنے کے لئے ایک ہی کار میں چکلالہ ائیرپورٹ تک گئے لیکن یہ بات واضح ہوگئی کہ چوہدری نثار علی خان ، میاں شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق ایک ہی ’’صفحہ‘‘ پر ہیں لیکن ایک بات واضح ہے میاں نواز شریف نے ’’مزاحمتی سیاست‘‘ کا جو راستہ اختیار کر رکھا ہے اس سے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی وہ ’’مائنس ون‘‘ کے فارمولے کو تسلیم کرتے ہیں وہ ان تمام مشکلات کو دور کر کے آگے بڑھنا چاہتے ہیں جو ان کی راہ میں حائل ہوں گی ۔ اب وہ پارٹی کے کسی بھی رہنما کی طرف سے ’’صبر و تحمل‘‘ کے مشورے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائدین راجہ محمد ظفر الحق اور زاہد حامد کو داد دینے کو جی چاہتا ہے جنہوں نے کمال حکمت عملی سے دونوں ایوانوں سے بل کو منظور کرا لیا اسے اپوزیشن کی ’’نالائقی‘‘ کہیں جس نے ایوان زیریں میں بل پڑھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی اور بل شق نمبر203کے ساتھ منظورکر ا کر اپوزیشن کے لئے صرف ’’لکیر پیٹنے اور شرمندگی‘‘ کے سوا کچھ نہیں چھوڑا۔ اب اپوزیشن مختلف تاویلیں پیش کر رہی ہے اسے کچھ سجائی نہیں دے رہا ۔ اب وہ ’’ بین ‘‘کر رہی ہے کہ ان سے دھوکے سے بل کی شق نمبر203منظور کروا لی گئی جس کے تحت میاں نواز شریف کے دوبارہ پارٹی کا صدر بننے کی راہ ہموار ہو گئی ۔اس پر طرفہ تما شا یہ کہ راجہ محمد ظفر الحق کی حکمت عملی سے الیکشن بل 2017ء کی شق نمبر203 سینیٹ میں اقلیت میں ہونے کے باوجود ایک ووٹ کی اکثریت سے منظو ر کر والی بل کی منظور ی میں مدد کرنے کے ’’جرم ‘‘ میں شامل ارکان کو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے شو کاز نوٹس جاری کر دئیے ہیں جب کہ ایم کیو ایم نے میاں عتیق کو پارٹی سے نکال دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے جہاں سینیٹ سے منظو شدہ الیکشن بل7 201 ء کی قومی اسمبلی ایک ہی نشست میں منظور ی کر والی وہاں راتوں رات صدر مملکت ممنون حسین سے توثیق کر وا کر اسے الیکشن ایکٹ2017 ء درجہ دلوا دیا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 2اکتوبر2017ء کو مرکزی مجلس عا ملہ سے پارٹی کے آئین کے آرٹیکل 120سی میں ترمیم کی سفارش کروا کر اسی رات جناح کنونشن سنٹر میں بلائے گئے پارٹی کی مرکزی جنرل کونسل کے اجلاس میں آئین میں ترمیم کی منظوری حاصل کر لی گئی ۔جس کے تحت پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے نا اہلی کے باوجودکوئی شخص بھی پارٹی کا عہدیدار بن سکتا ہے۔ 3اکتوبر2017ء کو میاں نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کا بلا مقابلہ صدر منتخب کر کے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ نواز شریف کو ملکی سیاست سے نکالنے کی ہر کوشش کا سیاسی انداز میں جواب دیا جائے گا ۔ میاں نواز شریف نے وارننگ کی گونج سیاسی حلقوں میں سنائی دے رہی ہے۔ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ حالات بدلنے کی کوشش نہ کی گئی تو پاکستان معاف نہیں کرے گا ‘‘ انہوں نے کہا ہے کہ ’’ عوام ووٹ سے فیصلہ سنائیں گے کہ اہل کون ہے اور نااہل کون ہے؟ ادھر اپوزیشن نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت نے پارلیمینٹ سے دھوکہ کیا ہے اورخاموشی سے نااہل شخص کو سیاسی جماعت کا سربراہ بنانے کی شق شامل کر دی گئی تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ نے الیکشن ایکٹ 2017ء کے خلاف عدلیہ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔
منگل کو قومی اسمبلی کے پورے اجلاس میں الیکشن ایکٹ2017ء سے ’’ختم نبوت کے اقرار نامے ‘‘ کے اخراج پر بحث ہوتی رہی ۔ اس بل سے اقرار نامے کے الفاظ پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کی منظوری کے وقت نکال دئیے گئے تھے۔ اقرار نامے کے الفاظ حذف کئے جانے سے متعلق اس تنازعہ پر اسمبلی میں بل آنے کے بعد اپوزیشن کی کسی جماعت نے نوٹس نہیں لیا۔ یہ بل قومی اسمبلی سے متفقہ طور منظور ہونے کے بعد سینیٹ میں آیا تو جماعت اسلامی اور جمعیت علما ء اسلام (ف) نے اس بات کا نوٹس لیا۔ اگر قومی اسمبلی سے پہلی بار منظوری کے وقت ہی بل میں’’ اقرار نامہ‘‘ کے الفاظ شامل کر لئے جاتے تو آج اپوزیشن کے شور شرابہ کی نوبت ہی نہ آتی۔ اس بل میں ختم نبوت کے اقرار نامہ کے الفاظ شامل نہ کرنے کی ذمہ دار پوری قومی اسمبلی ہے۔ اب اپوزیشن سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے تمام ملبہ حکومت پر ڈال رہی ہے ۔جب اپوزیشن کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی عدم موجودگی میں جمعیت علما ء اسلام (ف) کی سینیٹر حمد اللہ نے ختم نبوت پر یقین کے ساتھ اقرار کے الفاظ شامل کرنے کی ترمیم جمع کرائی ۔لیکن اپوزیشن جس میں پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف اور اے این پی شامل تھے نے مسترد کر دی۔ اگر اس روز جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) اپنے تمام ارکان کی حاضری کو یقینی بناتی تو ان کی ترمیم منظور ہو جاتی۔ ان کی ترمیم کے حق میں مسلم لیگ(ن) نے ووٹ دیا دلچسپ امر یہ ہے کہ جمعیت علما ء اسلام (ف) نے مسترد شدہ ترمیم والے بل کی آخری خواندگی میں حمایت کر دی۔ جب یہ بل قومی اسمبلی میں دوبارہ آیا تو ایک بار یہ معاملہ جماعت اسلامی نے اٹھایا جہاں حکومت کا ہدف شق نمبر 203 کی منظوری والا بل منظوکرانا تھا اس لئے سینیٹ سے منظور کردہ بل کو عجلت میں منظور کرا لیا۔ اگر جماعت اسلامی کی ترمیم کو منظور کرلیا جاتا تو مسلم لیگ (ن) کا 3اکتوبر2017ء کو میاں نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کا صدر بنانے کا فیصلہ التوا میں پڑ جاتا۔ بہرحال یہ بات واضح ہو گئی ہے پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کے مجموعی طور پر 129اجلاس ہوئے جن میں زاہد حامد کی سربراہی میں قائم ذیلی کمیٹی کے93اجلاس منعقد ہوئے۔ جن کے انعقاد پر حکومت نے ارکان کو کروڑوں روپے بطور ٹی اے ڈی اے دیا ۔لیکن کمیٹی کے ارکان نے الیکشن بل 2017ء کا مسودہ پڑھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی جس کی وجہ سے بل کے بارے میں نیا تنازعہ پیدا ہو ا ۔ جو ایک روز گذرنے کے بعد حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے ختم کر دیا۔ اب دینی حلقوں کو مطمئن کرنے کے لئے بل میں اقرار نامہ کے الفاظ اسی طرح شامل کرنے کی ترمیم قومی اسمبلی سے منظور کروا لی جائے گی جس طرح پہلے عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء میں شامل تھی ۔
پچھلے دو تین ہفتوں سے پارلیمانی حلقوں میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کو ہٹائے جانے کی باز گشت سنائی دے رہی تھی اس تحریک کے پیچھے تحریک انصاف سرگرم عمل ہے۔ اس نے سب سے پہلے اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت ایم کیو ایم کو ساتھ دینے پر آمادہ کر لیا لیکن تاحال اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کے لئے ’’نمبرزآف گیم ‘‘ میں تحریک انصاف پیچھے ہے قومی اسمبلی میں قائد اختلاف سید خورشید شاہ نے چیئرمین نیب کی تقرری کیلئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے تین ملاقاتیں کی ہیں چیئرمین نیب کے لئے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان جن 6ناموں کا تبادلہ ہوا ان میں آفتاب سلطان ، رحمت جعفری ، اعجاز چوہدری ، فقیر محمود کھو کھر جاوید اقبال اور اور اشتیاق احمد کے نام شامل ہیں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان آج چوتھی ملاقات ہو گی۔ جس میں چیئرمین نیب کی تقرری کے سلسلے میں پیش رفت کا امکان ہے ۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

ای پیپر دی نیشن