ایڈووکیٹ عبدالرحمان صدیقی، کچھ یادیں کچھ باتیں

موت اٹل ہے حقیقت ہے ۔ہر جاندار نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ سچ ہے زندگی موت کی حفاظت نہیں کر تی مگر موت زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔سب سے بڑا سسپنس زندگی کا یہ ہے کہ کسی کو موت کے وقت کا اور جگہ کا معلوم نہیں۔ اس کے باوجود انسان ساری زندگی موت کی پروہ نہ کرتے ہوئے گزار دیتا ہے ۔قبر میں لیٹنے کی پریکٹس ہم روز نیند کی صورت میں کرتے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ نیند کے بعد نارمل ہو جاتے ہیں لیکن موت آ جانے سے دوبارہ دنیا میں اٹھ نہیں سکتے ۔ بعض اموات ایسی ہیں جن پر بعض اوقات یقین نہیں آتا کہ یہ ہستیاں یہ رشتے ہمارے درمیان نہیں رہے ۔ان کے جانے کے بعد دل نہیں مانتا کہ ایسا ہو چکا ہو گا ۔ایسی ہی ایک موت ہمارے اور آپ کے ساتھی دوست بھائی عبدالرحمان صدیقی ایڈ ووکیٹ سپریم کورٹ کی واقع ہوئی ۔ وہ اکثر کبھی ڈسٹرک کورٹ ،کبھی ہائی کورٹ ، کبھی ایف ایس ٹی اور کبھی سپریم کورٹ میں مقدمات کی پیروی کرتے دکھائی دیتے تھے۔ چار پانچ روز تک اگر کوئی وکیل نہ دکھائی دے تو ساتھی وکلا یہی سمجھتے ہیں کہ وہ ضرور کسی صوبے کی دوسری کورٹ میںگئے ہو نگے ۔ صدیقی مرحوم کے بارے میں راقم کا بھی یہی خیال تھا ۔نویں محرم بروز ہفتہ صبح ناشتے کے بعد چوہدری خالد حسین ایڈدوکیٹ میڈیا کواڈینیٹر کا میسجز دیکھا اور پڑھا کہ ہماری بار کے معزز ممبر محترم جناب عبدالرحمان صدیقی وفات پا چکے ہیں۔ پڑھ کر یقین نہیں آ رہا تھا کہ صدیقی صاحب ہم سے دور جا چکے ہیں ۔شیریں عمران ایڈووکیٹ سے فون پر رابطہ کیا خبر کی تصدیق روتے ہوئے کی ۔ کہا مجھے خود یقین نہیں آ رہا ۔ یقین اس لئے نہیں آیا کہ کسی کو آپ کی ناسازی طبیعت کا علم نہیں تھا ۔ سیگریٹ کے شوقین تھے مگر آپ سگر یٹ اناڑی انداز میں سموک کرتے تھے ۔ جو بھی سگریٹ پیتے دیکھتا وہ یہی سمجھتا کہ یہ ان کا سگریٹ پینے کا شائدپہلا دن ہے ۔کبھی کسی بیماری کا ذکر آپ سے نہیں سنا ۔ بتایا گیا کہ رحلت سے تین چار روز قبل بخار ہوا۔ اسپتال میں داخل ہوئے ۔ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ باڈی میں سوڈیم کی کمی ہے ۔جب ڈاکٹروں نے اس کمی کو پورا کرنے میں کامیاب ہو گئے مگر اس سے باڈی کا ٹمپریچر یک دم زیادہ ہو گیا ۔ جس کی وجہ سے آپ کو فوری آئی سی یو میں منتقل کر دیا گیا ۔ جہاں ہفتہ کی دوپہر آپ سب کو چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے۔ جس کے بعد آپ کی یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی۔ جنازے کا وقت دو بجے کامقرر تھا ۔لوگ کافی تعداد میں پہلے موجود تھے ۔جنازے میں شرکت کیلئے آخری لمحہ تک آتے رہے ۔ نماز جنازہ سے قبل چہرہ دکھایا گیا جسے دیکھ کر یوں لگا کہ جیسے نیند پوری کر رہے ہوں۔ اس موقع پر اسلام آباد جماعت اسلامی کے سربراہ میاں اسلم اور چند دیگر دوستوں نے خطاب بھی کیا ۔ ہر کوئی آپ کی تعریف کر رہا تھا۔ ایڈووکیٹ ثنا اﷲ زائد اور توفیق آصف کو بچھڑنے کے غم میں روتے دکھائی دئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز جسٹس شوکت عزیز صدیقی ،جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس چوئدری عزیز نے بھی جنازے میں شرکت کی۔ ان کی موجودگی نے ثابت کیا کہ عہدے رشتوں کو جدا نہیں کر سکتے ۔ ان کی موجودگی سب کو اچھی لگی ۔ آپ کی شہرت و عزت کا اندازہ اس سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ یہ جنازہ اسلام آباد کے چند بڑے جنازوں میں سے تھا ۔ جنازہ انکے بڑے صاحبزادے نے پڑھایا ۔ سوگوار میں بیوہ اور تین بیٹے تھے ۔ بڑا بیٹا ابھی لاء کے تیسرے سال کا طالب علم ہے۔ انکا تعلق فیصل آباد سے تھا ۔ پنجاب سے گریجویشن کے بعد اسلامک یونیوسٹی سے لا کیا پھر ایل ایل ایم کیا ۔ دوہزار تین میں ایڈووکیٹ سپریم کورٹ انرول ہوئے ۔ کہا جاتاہے کہ طالب علمی کے زمانے میں آپ جماعت اسلامی یوتھ ونگ پنجاب کے جنرل سیکٹری اور جماعت کے ناظم بھی رہے ۔ وکالت میں اسلام آباد کے مشہور وکلا میں آپ شمار ہوتا تھا ۔ آپ کے چمبر میں میل اور فی میل جو نیئر ہمیشہ رہے ۔آپ کی جونیئر میڈیم شیریں نے بتایا کہ آپ کے چمبر کی کچھ فی میل وکلا آج سول جج ہیں ۔ آپ کی موجودہ جونیئر میڈم نیلی آپ کے چمبر کی آخری جونیئر ہے جو آ خری وقت تک آپ کے ساتھ کام کر تی رہی ۔ آپ اپنی جونیئرز اور سٹاف کا ہمیشہ خیال رکھتے۔ اپنے سٹاف کووقت پر تنخواہیں دیتے ۔ آپ سے اگر کسی نے بھی قانونی رہنمائی لینا چاہی تواسے آپ ہمیشہ خندہ پیشانی سے مشورہ دیتے ۔ یاداشت ، حافظہ بلا کا تھا ۔ ہر کیس لا آپ کی فنگر ٹپ پر تھا ۔ محنتی اور اپنے پروفیشن کے ساتھ سچے تھے ۔ ساتھیوں سے پیار رکھنے والے انسان دوست تھے۔ آپ کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے کوئی پورا نہیں کر سکے گا ۔ جنازے کے بعد سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ایم بلال صاحب نے بتایا کہ میں نے صدیقی مرحوم کے جسد خاکی کو سلوٹ کیا ہے ۔ ایم بلال صاحب کا سلوٹ پیش کرنا پوری سپریم کورٹ بار کے وکلا کی جانب سے صدیقی مرحوم کو زبردست خراج تحسین پیش کرنا تھا۔ بلال صاحب نے سوموار کے روز سپریم کورٹ بار میں دعا مغفرت بھی کروائی ۔ سپریم کورٹ بار کے سیکٹری جنرل باجوہ صاحب اور سیکٹری فنانس ارشد کیانی نے بار کی نمائدگی کرتے ہوئے مرحوم کے درجات کیلئے دعا میں اپنے دیگر ساتھیوں راقم ، سینئر ایڈووکیٹ ایم بلال صاحب ، طارق کھوکھر،میاں روئف ، شاہ خاور ، نیاز راٹھور ،چوئدری عارف ،رانا لطیف ،خالد عباس خان، ذوالفقار بھٹہ ، ذوالفقار باوجوہ ،فوزی ظفر ،انجم ملک ،عائشہ تسلیم ،آصف وردگ ،مصطفی کندوال ایڈووکیٹ کے ساتھ شرکت کی ۔ دعا ہے ا ﷲ تعالی عبدالرحمان صدیقی مرحوم کے عزیز اقارب کو صبر دے اور مرحوم کو جنت و فردوس عطا فرمائے۔ امین

ای پیپر دی نیشن