"سمنگلی ائر پورٹ" ۔ 28 برس قبل کا منظر آنکھوں میں گھوم گیا ۔ سیاہ سٹرک پر جا بجا بکھری ہوئی بجری ۔ خال خال مسافر ۔ اب کی مرتبہ "جہاز" بھر ہوا تھا مگر سہولتیں ۔ معیار گو کہ پہلے کی نسبت بڑھ کر تھیں مگر بہت فرق معلوم ہوا ۔ چھوٹی سی ائر پورٹ عمارت اب تعمیر و ترقی ۔ توسیع کے منصوبے کا حصہ بنتے معلوم ہو رہی تھی ۔ یقینا کچھ ماہ کے بعد نقشہ بدلا ہوا دکھائی دے گا ۔ اگرچہ یاداشت اتنی اچھی نہیں رہی پر گزرے زمانہ کی چند تصویریں دھندلی دھندلی ضرور ہیں مگر یاد ہیں ۔ تب بلڈنگ ایک وسیع ۔ خالی میدان کے اردگرد تھی اب قرب و جوار تر قیاتی منصوبوں رہائشی کالونیوں کے حصار میں آچکے ہیں۔ اگلے دن چمن روانگی تھی ۔ رات کے کھانے پر" بلیوں "نے بچوں کو بڑا تنگ کیا ۔ ملازمین کی کوششوں کے باوجود چند لمحات کے بعد پھر آموجود ہوتیں ۔ معلوم ہوا کہ اِس گھر کی خوراک کی مستقل حصہ دار ہیں ۔ لگتا ہے "افغانی" ہیں بار بار آجاتی ہیں ۔" معصوم بچی "کا تبصرہ بڑا دلچسپ تھا ۔ ایک فقرے نے ساری "پاک افغان دوستی" کی تفسیر بیان کر دی۔
"گوشت "وہ بھی" دنبے" کا ۔ قبائلی ثقافت ۔ رسوم ۔ مزاج ۔ "پیٹ" کا لازمی حصہ ہے۔ حیرت ہوئی کہ اِس علاقے کی بلیاں اتنی نحیف ۔ کمزور وافر مقدار میں گوشت میسر ہونے کے باوجود۔ یہاں بھی ذہن دہائی قبل پچھے پلٹ گیا ۔ کِس طرح ۔ کیسے ہم نے افغانیوں کو سر پر چڑھایا ۔ آنکھوں پر بٹھایا ۔ گھر ۔ کاروبار۔ معاشرت سبھی کے دروازے کھول دئیے ۔ بدلہ میں معیشت ۔ سماج تو تباہ ہوئے ۔ احسان فراموشی ۔ غداری ۔" ہندو بنیا" کی ذہنیت والی دشمنی کے نقصانات ہنوز جاری ہیں ۔ دہائیاں بیٹھ کر۔ کھا کر بھی حالت نہیں بدلی یہ تو پھر چند ماہ یا کچھ سال کی بلیاں ہیں ۔
5" روپے میں ٹنل"
10"ہزار مزدور" فی مزدور اُجرت ایک آنہ ۔ سکہ رائج الوقت ۔ انگریز کا دور ۔ 3" سال" میں ٹنل مکمل ۔ کُل خرچ 5" روپے" ۔ جی ہاں صرف 5روپے۔ بات ہے" چمن "شہر سے ملحق ایک تاریخی جگہ کی یعنی "شیلا باغ" ۔ اِس جگہ کے اردگرد بہت باغات تھے اِسی نسبت سے نام" شیلا باغ" پڑ گیا ۔
ساہو کار ہو یا قبضہ گروپ ۔ ہر دو کی ذہنیت صرف دوسروں کا مال ہتھیانے یا بٹورنے کی طرف گھومتی ہے۔ انگریزوں نے سرنگ بنانے واسطے 10"ہزار مزدور" رکھے ۔ ہر مزدور کی یومیہ اُجرت ایک آنہ تھا ۔ یہ دن کو سرنگ کھودتے اور رات کو" شیلا" نامی ایک ڈانسر کے ٹھمکوں پر پوری مزدوری لُٹا دیتے ۔ یوں سارا پیسہ واپس" سرکار" کے پاس چلا جاتا ۔ مشہور ہے کہ" شیلا" کو رکھا ہی اِسی مقصد کے لیے تھا ۔ جب سرنگ تیار ہوئی تو کل اخراجات کا تخمینہ5" روپے" ثابت ہوا ۔ اُونچے پہاڑ سے دائین طرف نظر پڑی تو مختصر سی تعمیرات کی آبادی دکھائی دی ۔ چندثانیوں بعد اُسی جگہ جا اُترے ۔ جنگل میں منگل صرف اہل دل۔ اہل جنون ہی سجا سکتے ہیں ۔ تازہ سبزیوں ۔ سرخ و سفید اناروں ۔ خوبصورت درختوں کے جلو میں گھرا ہوا "آرمی میس "۔ زبردست لذت کام و دہن کے بعد ریلوے لائین پہنچے ۔ ہتھ ریڑھی پر سوار ہوئے اور پھر دنیا کے واقعی ایک منفرد ۔ تاریخی عجوبے کی سیر پرروانہ ہوئے ۔ ایک مزدور ہاتھوں سے دھکیل رہا تھا ۔ دوسرا پچھلی سیٹ پر براجمان ۔ کچھ سفر کے بعد "بابا جی" نے دھکیلنے کی ذمہ داری سنبھال لی۔ نصف سفر کے بعد مکمل اختیار قدرت کے ہاتھوں میں تھا ۔ خود بخود" ریڑھی" چلتی گئی اور حقیقتاً رفتار عام ٹرین کے چلنے جیسی تھی ۔ یورپ نے تو اپنے ممالک کو خود جنت مثل بنایا جبکہ ہمارے دیس میں تو قدم قدم پر گھڑی گھڑائی جنتیں موجود ہیں مگر کوئی ان کی قدر کرنے والا نہیں ۔ ہم سب صرف" آتش" کے ذخائر جمع کرنے میں مگن ہیں ۔ دنیاوی آتش" سجدے "کی لذت محسوس نہیں ہونے دے رہی ۔ پاکستان کے دیگر شہروں کو تو چھوڑیں اکیلا بلوچستان اپنے محل وقوع باعث ایک یکتا خزانہ ہے مگر صد افسوس کہ یہ خزانہ ابھی تک مدفن ہے ۔ زندہ ضرور ہے۔ نظر بھی آتا ہے مگر کِسی حکمران کے پاس اتنا وقت نہیں کہ یہاں آئے ۔ بیٹھ کر یہاں کے دُکھوں کے انبار کو کھوجے ۔ یقین جانئے عام آدمی بے حد پر سکون ۔ مطمن ہے ۔ سادہ مٹی کے بنے خوبصورت ایک نقشہ ۔ ڈیزائن والے گھروں میں خوشی سے زندگی گزار رہا ہے مگر دکھ ۔ افسوس ہے اُن "سرداروں ۔ مِشروں" پر جو اربوں روپے لوٹ کر کھا چلنے کے باوجود ناراض ۔ غیر مطمن ہیں۔ وہ اشرافیہ جس نے اپنی رعایا کی حالت نہیں بدلنے دی نہ تبدیلی لانے میں کوئی کردار ادا کیا ۔ صرف اِس لیے کہ پھر ووٹ لینے کا جواز ختم ہو جائے گا اگر عام آدمی پڑھ لکھ کر برابری کی بات کرنے لگے گا ۔ بہت ہلکی سوچ ہے ۔ "چمن" شاید ایشیا ء کی سب سے بڑی تجارتی گزرگاہ ہے۔ پاکستان ۔ افغانی سمگلرز کی جنت ۔ نئے و پُرانے غیر ملکی سامان سے دوکانیں بھری ہوئی مگر نقلی مال کی افراط۔ اصلی کہہ کر بیچنے اور واپسی کی گارنٹی نہ دینے والے 5"وقت نمازی "۔ اب واپس کون کرے ۔ قسمت سے کوئی پروڈکٹ اصلی بھی نکل آتی ہے ۔ جن جن علاقوں میں گئے طرز زندگی سادہ ۔ کھانا پینا ارزاں حتیٰ کہ پنجاب میں مشہور برانڈ کی 25 لاکھ مالیت کی گاڑی اِدھر" 3یا4لاکھ" میں دستیاب ہے پر معاملہ وہی سمگلنگ گڈز کا ۔ کوئی بھی خرید سکتا ہے گاڑی اصلی مگر کاغذات دو نمبر ۔ اگر ہم مسائل کی بات کریں تو لِسٹ بہت اُوپر چلی جائے گی ۔ سر فہرست پانی کی بڑھتی ہوئی کمی ہے۔ باغات بہت زیادہ اور وسیع و عریض۔ پر درختوں سے لیکر تارکول کی سڑکوں تک گرد کی موٹی تہہ جمی ہوئی دیکھی۔ پانی کے کم ہوتے لیول کیوجہ سے" ٹینکر" سروس روبہ عمل ہے۔ کوئٹہ اور جنوبی شہروں میں تو پانی نایاب ہو چکا ہے۔ پر اُمید کرتے ہیں کہ نئے" وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال صاحب" معدنیات سے مالا مال خزانے کو ریگستان نہیں بننے دیں گے۔