سید فہیم کاظمی الچشتی
موجودہ حالات میں امت مسلمہ بالعموم اور پاکستان بالخصوص ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں ، جہاں ایک رستہ نعرے بازی، احتجاج، جلسے جلوس اور اس قسم کے دوسرے شدت پسندانہ اعمال کا راستہ ہے۔ دوسرا راستہ تحصیل علم، حکمت ، تدبیر اور تزکیہ نفس کاراستہ ہے۔ یہ وہی راستہ ہے، جسے مسلمان صوفیاء نے اختیار کیا ۔ پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ کے مطابق افریقہ کے بربر قبائل میں اسلام کی روشنی قادریہ سلسلے کی ایک خانقاہ ’’ ساقیۃ الحمرائ‘‘ کے ذریعے پہنچی۔ خانقاہ کے شیخ نے سقوط ہسپانیہ کے جلا وطن مسلمانوں کی تربیت کی اور انہیں اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی شکایتیں کرنے کے بجائے اس کام کے لیے تیار کیا کہ وہ وحشی قبائل میں اسلام کی روشنی پھیلائیں۔
یورپ میں بھی اسلام کی ترویج صوفیاء کرام نے ہی کی۔ ایک مغربی مورخ کے مطابق مشرقی یورپ میں اسلام کی پیشقدمی کی آخری حد پوڈالپسٹ (ہنگری) تھی ، جہاں آج بھی دریائے دانوب کے کنارے ایک روحانی بزرگ ’’ گل بابا‘‘ کا ترکی طرز کامزار نشانی کا کام دے رہا ہے۔
ہندوستان میں آج بھی ہندو مذہب کے لوگ مسلمان صوفیاء کرام کا نام عقیدت و احترام کے ساتھ لیتے ہیں۔ ہندوستان میں صرف نودہائیوں کی مختصر مدت میں سلسلہ چشتیہ کے روحانی بزرگوں نے معجزانہ طور پر ہندوستان کے ماحول کو بدل ڈالا۔ تذکرہ نگاروں کے مطابق حضرت خواجہ غریب نواز کے دست حق پرست پر بالواسطہ اور براہ راست تقریباً نوے لاکھ ہندوئوں نے اسلام قبول کیا تھا۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران مسلمانو ںخصوصاً پاکستانیوں کے لیے پیدا ہونے و الے عالمی طاقت کے رویے کے بعد شعلہ بیان مقرر اور جذبات کو بھڑکادینے والوں کی بجائے کرشمہ ساز مقناطیسی شخصیت کے حامل لوگوں کی ضرورت ہے، جو دلوں کو مسخر کرلینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ضرورت ہے کہ ایسا روحانی ماحول تشکیل دیا جائے ، جس کے ذریعے فرد کے اندر ایسا کرشمہ اور نورجلوہ گرہو سکے جو ہجوم کے ہجوم کو بغیر دلیل اپنی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں وہ پاکیزگی پیدا ہو جاتی ہے جو رحمت الہٰی کو متوجہ کرنے کا باعث بنتی ہے۔۔۔