نیا پاکستان اور کالج اساتذہ کی محرومیاں! (1)

Oct 05, 2018

پروفیسر شکیل عباسی

ہر سال 5اکتوبر کو " ورلڈ ٹیچر ڈے " کے طور پر منایا جاتا ہے تا کہ استاد کے کردار ، اہمیت اور ان کے مسائل کو اجاگر کیا جا سکے مگر اس کے بر عکس ہمارے معاشرے اور ملک میں "ورلڈ ٹیچر ڈے " منانا تو کجا اساتذہ کو ہر طرح سے پیچھے رکھنے کی ہر دور میں بھر پور کوشش کی جاتی رہی۔ نتیجتاً آج بحثیت مجموعی ہم ترقی کی دوڑ میں دنیا کے تقریباً 145ممالک سے بھی پیچھے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ تمام تر محکمانہ ترقیاں ، عالی شان رہائش گائیں، لمبی لمبی سرکاری گاڑیاں، وسیع و عریض زرعی زمینوں کی الاٹمنٹ، بھر پور سرکاری پارٹیاں، زرق برق لباس ، کئی کئی ملکی اور غیر ملکی کرنسی اکاوٗنٹس ، فیکٹریوں میں حصہ داری، بڑے بڑے تعلیمی اور طبی اداروں میں سرمایہ کاری اور سالانہ بجٹ میں 50سے 60 فیصد حصہ تو خاکی اور سول بیوروکریسی تک محدود جبکہ شاندار کارکردگی اور نتائج اساتذہ سے توقع کئے جاتے ہیں۔ جن پر سالانہ بجٹ کا صرف 2فیصد صرف کیا جائے، رہائش کے لئے اوسطاً 6ہزار روپے ماہانہ، میڈیکل الاوٗنس 5 ہزارروپے ماہانہ دیا جائے جس سے بڑے شہروں میں ایک مناسب کمرہ کا ملنا اور بیمار کا ایک دن کا علاج کروانا محال ہو۔ پروموشن کے لئے ایک سکیل میں تقریباً 15سے 20سال رکھنا، پروموشن کا فیصلہ ڈیڑھ سال تک بھی نہ ہونا ، پروموشن کو کلاس رزلٹ سے منسلک کرنا ، کالجز میں پانی، لائبریری اور انٹرنیٹ سہولیات کی سہولیات کا نہ ہونا، علاج معالجے کے لئے لمبی لمبی لائنوں میں گھنٹوںکھڑے رہنا، تنگ و تاریک گلیوںاور مکانوں میں رہنا، اپنے بچوں کو عام تعلیمی اداروں میں پڑھانا ، اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے رات گئے ٹیوشن پڑھانا یا کوئی اور کام کرنا، مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ان کی ذیلی طلبہ تنظیموں کے اثر و رسوخ کا دباوٗ برداشت کرنا اور پنشن حاصل کرنے کے لئے دفاتر کے دھکے کھانا، واجبات کی ادائیگی کے لئے 2فیصد باقاعدہ رشوت دینا ، اپنے ہی جی پی فنڈ سے مالی ضروریات پور کرنے کے لئے معمولی سکالرشپ (14000روپے سالانہ) اور وہ بھی 60 فیصد نمبروں کی شرط کے ساتھ ، فوتگی لے لئے صرف000 25 روپے اور شادی کے لئے صرف 40ہزار اور سب سے بڑھ کر نوکر شاہی کے ناروا سلوک کو برداشت کرنا ایک ظالمانہ اور جانبدارانہ پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس پسِ منظر میں جبکہ موجودہ حکومت جو کہ تبدیلی کے داعی اور ہر قسم کی ناانصافی ، ظلم اور امتیازی سلوک کو ختم کر نے کے در پے ہے۔ آج کے دن کے حوالے سے اساتذہ کو خصوصی پیکج دے کر معاشی اور سماجی دباوٗ سے اس قدر آزاد کر دے کہ وہ اپنا کام یکسوئی سے سر انجام دیں۔ اس پیکج کے نمایا ں خد و خال یہ ہوں:۔٭ سست پروموشن کے جمود کو توڑنے کے لئے بیورو کریسی کی طرح اساتذ ہ کو ٹائم سکیل پروموشن دیا جائے۔ (جاری ہے)

اور انہیں بھی بائیسویں سکیل تک پروموٹ کیا جائے جس کے لئے سال میں کم از کم دو پروموشن میٹینگز کا انعقاد لازمی ہو۔ ہر سال نئی سنیارٹی لسٹ تیار کی جائے۔ پروموشن کے ساتھ کلاس زرلٹ کابورڈ یا یونیورسٹی زرلٹ سے زیادہ ہونے کی شرط امتیازی ہے جسے ختم کیا جائے کیونکہ رزلٹ میں طالبعلم کامعیارادارے کاماحول ، طالبعلم کی حاضری، والدین کی دلچسپی ، ملکی حالات وغیرہ کا بھی عمل دخل ہے دوسرا یہ کہ یہ شرط وفاقی تعلیمی اداروں میں نہیں اور نہ ہی بیوروکریسی میں جہاں ریلوے، انکم ٹیکس، ضلعی انتظامیہ کا خسارہ اربوں میں ہو نے کے باوجود ہر پانچ سال بعد پروموشن آسامی نہ ہونے کے باوجود ہو جاتا ہے۔ اسی اصول کے تحت بڑھتے جرائم ، ناکام خارجہ پالیسی، گرتی برآمدات، ناقص ڈاک کا نظام کے باعث پولیس، فارن سروس ، کامرس اور پوسٹل گروپ کا پروموشن بالکل نہیں ہو نا چاہئے۔
٭ تمام اساتذہ کو دورانِ ملازمت گھر یا وفاقی ملازمین کی طرح ہاوٗس ریکوزیشن دی جائے۔ اس سلسلہ میں پنجاب گورنمنٹ سرونٹس ہاوٗسنگ فاوٗنڈیشن کو فعال بنا کر زیرِ التوا پروجیکٹس کو مکمل کیا جائے نئی ممبر شپ شروع کی جائے۔ بیورو کریسی سے مجوزہ طور پر لی جانے والی زمین پر اساتذہ کے لئے رہائشی کالونیاں بنائی جائیں کیونکہ اوسطاً 6ہزار روپے ماہانہ مکان کرایہ کسی طور اساتذہ کی بنیادی رہائشی ضرورت پوری نہیں کرتا۔ ٭طبی سہولیات کے لئے ہر شہر میں اساتذہ کے لئے الگ ہسپتال قائم کئے جائیں اور موجودہ ہسپتالوں میں اساتذہ کے لئے الگ ونڈو مقررکی جائے۔ ٭ تمام شہروںمیں اساتذہ کی سہولت کے لئے کمیونٹی سنٹرز کھولے جائیں ٭ اساتذہ کے بچوں کے لئے سروس اور تعلیمی اداروں میں کوٹہ مقرر کیا جائے۔ ٭ بہبود فنڈ کی سکالر شپ کو بچے کے اصل اخراجات سے منسلک کیا جائے اور بعد میٹرک لیول اور بغیر 60فیصد نمبروں کی شرطسے آزاد کیا جائے کیونکہ ہر سال اساتذہ کی تنخواہ سے تقریباً 30تا 40ہزار روپے کاٹے جاتے ہیں لیکن میٹرک کے بعد سے 60 فیصد شرط کے ساتھ صرف 14000روپے سالانہ شکالر شپ دی جاتی ہے جبکہ شادی گرانٹ صرف 40ہزار اس کو بھی تین گنا کیا جائے۔ اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں سکیلز پر برائے راست بھرتی کا سلسلہ بند کیا جائے یا پھر تمام محکموں میں اس کو متعارف کرایا جائے

مزیدخبریں