نیویارک (بی بی سی) امریکہ کے ایوان نمائندگان کے کئی ممبران نے اپنے بیانات میں کشمیر کی بگڑتی صورتحال پر مودی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جبکہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کو بھی اس سلسلہ میں خطوط لکھ چکے ہیں۔مینیسوٹا کی مسلمان رکن کانگریس الہان عمر نے بھی چھ ارکان کانگریس کے ساتھ مل کر امریکہ کے پاکستان اور انڈیا میں سفیروں کو خطوط لکھ کر اپیل کی ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کا احترام کیا جائے اور کشیدگی کم کرنے کے لیے کوششیں کی جائیں۔ انڈین نژاد رکن کانگریس پرمیلا جیاپال نے الہان عمر اور 12 دیگر اراکین کانگریس کے ساتھ مل کر ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ مودی حکومت کشمیر میں حراست میں لیے گئے افراد کو فوری رہا کرے اور وہاں انٹرنیٹ اور ٹیلیفون پر عائد بندش ختم کی جائے۔ بیان میں اس بات پر بھی بھارتی حکومت پر تنقید کی گئی کہ وہ کشمیر میں لوگوں کو مسجدوں میں نماز پڑھنے پر عائد پابندی ختم کرے کیونکہ وہاں کے شہریوں کے پاس بھی انڈیا کے دیگر شہریوں کے طرح حقوق حاصل ہیں۔امریکی ریاست مینیسوٹا کی مسلمان رکن کانگریس الہان عمر نے اپنی ٹوئٹ میں مطالبہ کیا تھا بین الاقوامی اداروں کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کا معائنہ کرنے کیلئے وہاں جانے کی اجازت دی جانی چاہئے۔ امریکہ میں 'ہندو فار ہیومن رائٹس' نامی ایک تنظیم کی سنیتا وشواناتھن کہتی ہیں کہ وہ خوش ہیں کہ ہندو اور انڈین نژاد رکن کانگریس نے کشمیریوں کے حالات پر آواز اٹھائی ہے۔ سنیتا کا کہنا ہے کہ 'میں سمجھتی ہوں کہ امریکی اراکین کانگریس کشمیر کے معاملے میں سوالات کر رہے ہیں تو اس کا اثر تو پڑے گا۔نیویارک سے منتخب امریکی کانگریس کی خاتون رکن الیگزینڈرا اوکاسیو کورٹیز نے کشمیر کے بارے میں ایک تقریب میں شرکت کرتے ہوئے کشمیر میں محصور عام شہریوں کے لیے پیغام میں لکھا 'ہم کشمیر سمیت دنیا بھر میں امن اور انصاف کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں۔ کشمیر میں محصور خاندانوں کے ساتھ ہم سب کی دعائیں اور حمایت ہے۔'کورٹیز نے ٹویٹ کے ذریعے بھی کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا اور انڈین حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر میں مواصلاتی نظام کو بحال کیا جائے۔انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ 'ہم کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق، جمہوریت، برابری اور سب کے انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ انڈیا کے زیر انتظام میں تشدد کی جو خبریں آ رہی ہیں وہ نہایت تشویشناک ہیں۔ مواصلاتی نظام کی بندش ختم کی جائے اور جان بچانے والی ضروری ادویات تک رسائی بحال کی جائے۔ متعدد امریکی اخبارت میں بھی اس بارے میں خبریں شائع کی گئیں ہیں جن میں نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور ایل اے ٹائمز نمایاں ہیں۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ کے ایسے 20 افراد کا ذکر بھی کیا جنھوں نے انڈین سکیورٹی حکام کی جانب سے انھیں تشدد کا نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔نیویارک ٹائمز اخبار نے بھی اپنے صفحہ اول پر ایک ایسے کشمیری خاندان کی تصویر شائع کی تھی جن کے خاندان کے افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ نیویارک ٹائمز نے دو اکتوبر کو شائع ہونے والے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ اب اقوام متحدہ کشمیر کے مسئلے کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔اخبار نے لکھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ وہ کشمیر پر انڈیا کے وزیر اعظم کے سخت شکنجے والے تسلط کی مخالفت کرتی ہے۔دوسری جانب امریکی ٹی وی چینلز پر بھی کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق متعدد بار تفصیلی رپورٹس نشر کی گئیں ہیں۔ان میں سی این این، ایم ایس این بی سی، سی بی ایس اور اے بی ایس جیسے مقبول ٹی وی نیٹ ورک شامل ہیں جو انڈیا کے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر میں عائد پابندیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کا بھی ذکر کرتے رہے ہیں۔