بلیم گیم سے احتراز کی ضرورت ، جمہوریت پر زد پڑ سکتی ہے

وزراء کا نواز شریف پر پاکستان کے خلاف سازشوں کا الزام، پی ڈی ایم حکومت گرائو تحریک کیلئے سرگرم
 پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کے سربراہی اجلاس میں مولانا فضل الرحمن کو اتفاق رائے سے پی ڈیی ایم کا پہلا صدر منتخب کر لیا گیا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے کنوینر احسن اقبال نے کہا کہ احتجاجی تحریک کے پروگرام کو حتمی شکل بھی دے گئی ہے۔ پی ڈی ایم سربراہی ورچوئل اجلاس میں نوازشریف، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمن، ڈاکٹر عبدالمالک، سردار اختر مینگل، آفتاب احمد خان شیرپائو، امیر حیدر ہوتی، پروفیسر ساجد میر، اویس نورانی بھی شریک ہوئے۔ پی ڈی ایم کے اجلاس میں پاس کی گئی قراردادوں میں کہا گیا ہے کہ تین مرتبہ عوام کے منتخب، جوہری دھماکہ کرنے والے وزیراعظم پر ملک دشمنی کا الزام قابل مذمت ہے۔ اجلاس کے بعد کہا گیا کہ گرفتاریوں اور بھارت کارڈ استعمال کرکے پی ڈی ایم کی آئینی اور جمہوری تحریک اب نہیں رکے گی، پی ڈی ایم اجلاس میں مہنگائی کیخلاف بھی قرار داد منظور کی گئی۔ دریں اثناء سابق وزیراعظم نواز شریف کی تقاریر جن میں اداروں پر سوالات اٹھائے گئے ہیں ان پر اپنے ردعمل میں حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ لندن میں نواز شریف سی پیک اور پاکستان کیخلاف سازشوں میں متحرک ہیں۔وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ نواز شریف کے نظریات موسموں کی طرح بدلتے رہتے ہیں، اقتدار سے باہر ہوں تو انقلابی بن جاتے ہیں، اقتدار میں ہوں تو ان سے بڑا آمر کوئی نہیں ہوتا۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ خدا کو گواہ بنا کر حلفاً کہتا ہوں کہ اسلامی دوستوں کے ذریعے حکومت سے بارگین کی کوشش کی گئی ، پی ڈی ایم اندھوںکا اصطبل ہے ،اپوزیشن کی تحریک صرف سینیٹ کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان تک ہے ۔ آپ دوسرے ملک سے مودی اور جندال کو فون کرتے تھے وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے کہا  نوازشریف کی تقریر کو ملک دشمن قوتیں اور بھارت آنے والے دنوں میں کس طرح استعمال کرسکتا ہے انہیں اندازہ ہی نہیں ہے۔ لندن میں جس سفارت خانے میں آپ گئے اور ملاقاتیں کیں، ہمیں سب معلوم ہے، انڈیا کے ایجنڈے پرنہ چلیںاور فوج کیخلاف زہر نہ اگلیں۔ نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم سے کٹھمنڈو میں خفیہ ملاقات کی، نواز شریف بتائیں مودی سے ملاقات میں اہلکاروں کو رسائی کیوں نہیں دی ؟
تحریک انصاف حکومت کواپوزیشن جماعتوں جو اب متحد ہو کرحکومت کے خلاف ایک بار پھر تحریک کے لئے سرگرم ہیں،نے پہلے ہی روز سے قبول نہیں کیا۔ انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگائے گئے مگر دستاویزی ثبوت پیش کرنے کے بجائے زبانی جمع خرچ ہوتا رہا ۔ عمران خان کو مائنس کرنے کا تذکرہ ہوا۔ ان کے خلاف عدم اعتماد لانے کی باتیں ہوئیں ، نئے انتخابات کے مطالبات بھی سامنے آئے۔ تحریک انصاف کے قائدین کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ عمران خان کرپشن کے خاتمے اور کڑے احتساب کے لئے کمٹڈ ہیں اور اپوزیشن کے اکثر رہنمائوں پر کرپشن کے مقدمات ہیں لہٰذا عمران خان ان کے لئے ناقابل قبول ہیں۔ اپوزیشن کے حوالے سے حکومتی شخصیات کا جو بھی موقف ہو، عمران خان ان کے لئے کسی بھی وجہ سے قبول نہ ہوں اگر وہ ان کو صدر ، سپیکر ، چیئرمین سینٹ ، گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کو ہٹانا چاہیں تو اس کا آئین میں طریقہ کار طے کر دیا گیا ہے۔ وہی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
 آج کی اپوزیشن بڑی طاقتور ہے ۔ مرکز اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تحریک انصاف نے حکومتیں اتحادیوں کی مدد سے بنائی ہیں ، ہردد مقامات پر حکومت اور اپوزیشن کی عددی تعداد میں انیس بیس کا فرق ہے اپوزیشن نے عدم اعتماد کو بھی آپشنز میں شامل کیا ہے، اسمبلیوں سے استعفے بھی دینے کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔ اتنی بڑی تعداد میں استعفے آنے پر گو حکومت کی طرف سے ضمنی الیکشن کرانے کا کہا جا رہا ہے مگر یہ اتنا آسان نہیں ہو سکتا۔ استعفوں کی صورت میں سندھ سے پیپلز پارٹی کی حکومت بھی جاتی رہے گی جو پی ڈی ایم کی ایک طاقتور جماعت ہے۔ کیا وہ اقتدار سے تہی دست ہونا قبول کر لے گی؟ کشتیاں جلانے کی بات ہو تو شاید وہ استعفوں کے معاملے میں ہراول دستہ بن جائے۔ پیپلز پارٹی عمران خان اور ان کی حکومت کے خلاف آخری حد تک جا سکتی ہے مگر ان کے عمومی رویے جمہوریت کی عملداری کے خلاف ہرگز نہیں ہیں۔ پی پی پی اس کریڈٹ کی بجاطور پر حقدار ہے۔کچھ جماعتوں کا طرزِ عمل بادی النظر میں ذرا مختلف نظر آتا ہے۔ بعض تو کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘‘ کے رویوں کا اظہار کر رہے ہیں یہ جمہوریت کے شجر کی اس شاخ کو کاٹنے کے مترادف ہو گا جس پر اپنا آشیانہ بھی ہے۔ 11 جماعتی اتحاد میں ایسی پارٹیاں بھی ہیں جن کی پارلیمنٹ کی نمائندگی ہی نہیں ہے وہ حکومت سے نجات کے لئے زیادہ پُرجوش ہیں اور خود پی ڈی ایم کے پہلے صدر مولانا فضل الرحمن طویل عرصہ بعد پہلی بارپارلیمنٹ میں نہیں جا سکے وہ ہر صورت حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ حکومت کے خاتمے کے قانونی اور آئینی طریقے اختیار کرنے میں کسی کو اعتراض ہو گا نہ اس کا حرج ہے اور نہ ہی اس سے جمہوریت پر کوئی زد پڑے گی۔ 
آج حکومت اوراپوزیشن کے مابین بلیم گیم ، الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ ریاستی ادارے احتساب کے معاملے میں قانونی راستہ اپنائے ہوئے ہیں ، جس کی زد میں زیادہ تر حکومت مخالف لوگ آئے ہیں اس پر اپوزیشن کو بلاامتیاز احتساب کے تحفظات کے اظہار کا موقع مل رہا ہے۔ محض توازن کی خاطر حکومتی لوگوں کو نہیں پکڑا جا سکتا، غیر جانبدارانہ احتساب کا اوّلین تقاضہ بلاامتیاز احتساب ہے اس حوالے سے جہاں کہیں خلا اور سقم ہے وہ دور کرنا خود حکومت کی ساکھ کے لئے بہتر ہے۔ 
میاں نواز شریف کے تقریروں اور بیانات میں اداروں پر سوال اُٹھائے گئے ہیں ، تین بار وزیراعظم اور پختہ کار سیاستدان سے ایسے غیر محتاط رویے کی امید نہیں رکھی جا سکتی ، ان کے ایسے ہی متنازعہ بیانیے کے اظہار کے باعث اور عدالتوں کی طرف سے ان کو مفرور اور اشتہاری قرار دینے پر ان کے خطاب نشر کرنے پر پیمرا نے پابندی لگا دی ہے تاہم وہ عدالتوں میں اس پابندی کو چیلنج کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ حکومتی حلقوں خصوصاً وزرا کی طرف سے نواز شریف پر ایسے الزامات لگائے جا رہے ہیں جو قومی سلامتی پر زد کی حیثیت رکھتے ہیں ان بیانات میں صداقت ہے تو متعلقہ فورمز پر جانا چاہئے۔ 
بعینہٖ اپوزیشن بھی حکمران پارٹی کے لیڈروں پر کرپشن اور قومی سلامتی کو زک پہنچانے کے الزامات عائد کرتی ہے ان کے لئے بھی متعلقہ فورم موجود ہیں۔ ہر دو میڈیا میں الزامات کی بھرمار کرکے سیاسی فضا کو مکدر کرنے سے احترازکریں۔ 

ای پیپر دی نیشن