اللہ تعالیٰ کے بندوں کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ ان کا پڑھایا ہوا سبق فراموش نہیں ہوتا بلکہ گردش لیل و نہار اور حوادثات دہر کے باوجود اس کی سرمستیاں بڑھتی رہتی ہیں ، اس کی آب و تاب میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ یہ وہ درویش ہوتے ہیں جن کے پاس چاہے بظاہر مال و دولت ، جاہ و حشمت نہ بھی ہو پھر بھی عبادت و ریاضت ، تقویٰ و طہارت اور محبت و اطاعت کی بدولت نازل ہونے والے اللہ تعالیٰ کے انوار تجلیات کے باعث انہیں وہ شان دلربائی عطا کر دی جاتی ہے کہ لوگ ان کے رخ زیبا کو دیکھتے ہی اپنے زنا ر توڑ دیتے ہیں۔
اور ایسی ہستیوں پر تاریخ بھی نازاں ہوتی ہے ،چاہ کر بھی ان کو بھلایا نہیں جا سکتا ، ان کا پاکیزہ کردار ، نیک سیرت اور مجاہدانہ کوششیں ہمیں ان کا تذکرہ بالخیر کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ان اولوالعزم اور جلیل القدر شخصیات میں قدوۃ السالکین ، زبدۃ العارفین ، حجتہ الکاملین ، سند الواصلین ، مظہر العلوم الحنفیہ الجلیہ ابوالحسن حضرت علی بن عثمان ہجویری علیہ الرحمہ اور مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد فاروقی سرہندی علیہ الرحمہ کی ذات قدسیہ بھی ہیں جنہوں نے اس سرزمین میں اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کے لیے اقدام کیا جن کے دوررس اثرات ایک غیر معمولی تاریخی و فکری انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی و فکری تاریخ کا تجزیہ کرتے ہوئے حضرت علی ہجویری علیہ الرحمہ کی موثر شخصیت اور دینی حیثیت کو جس کی بناء پر ہندوستان میں اسلامی شعور اور ملی تشخص نمایاں ہوا ، مندرجہ ذیل اشعار میں خراج تحسین پیش کیا:
سید ہجویر مخدوم امم
مرقد او پیر سنجر را حرم
بندھائے کوہسار آساں گسیخت
در زمین ہند تخمِ سجدہ ریخت
عہد فاروق از جمالش تازہ شد
حق ز حرف او بلند آوازہ شد
پاسبانِ عزت اُم الکتاب
از نگاہش خامنہء باطل خراب
خاکِ پنجاب از دمِ او زندہ گشت
صبح ما از مہر اور تابندہ گشت
یعنی سید ہجویر رحمہ اللہ علیہ برصغیر میں پیران طریقت کے پیر ہیں۔ آپ دشوار گزار راستے طے کر کے ہندوستان میں آئے اور یہاں اور یہاں تعلیمات کا آغاز کیا۔ ترویج اسلام کے لیے آپ کی مساعی جمیلہ نے عہد فاروقی کی یاد تازہ کر دی جس کے نتیجے میں یہاں کلمتہ اللہ کا پرچم بلند ہوا۔ آپ قرآن مجید کی تعلیمات کے محافظ ہیں۔ آپ کے اقدام سے ہندوستان میں کفر کی قدیم طاقتوں کا خاتمہ ہوا اور سرزمیں پنجاب یعنی پاکستان کو نئی زندگی ملی اور آپ ہی کے آفتاب وجود سے ہماری ملت کے افق روشن ہوئے۔
ایک عرصہ بعد پھر جب دینی اقدار کو پامال کرنے کی کوششیں ہوئی تو حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ ان طاغوتی قوتوں کے سامنے سدِ سکندری بن کر کھڑے ہو گئے جن طاغوتی قوتوں کے ساتھ شاہانِ وقت بھی تھے ، بے عمل اور دنیا دار علماء بھی تھے ، نام نہاد اور طریقت کے نام پر بدنما داغ جاہل صوفی بھی تھے۔ بت پرست ، دہریت پسند اور بے شمار بدعقیدت کے حامل افراد ان کے علاوہ تھے۔ آپ نے بلاخوف و خطر جرأت و استقامت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے ان قوتوں کو پاش پاس کر کے اعلائے کلمتہ اللہ کا فریضہ ادا کیا۔
جب علامہ اقبال علیہ الرحمہ آپ کے مزار اقدس پر حاضر ہوئے تو عقیدت مع حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے بلااختیار کہنے لگے۔
حاضرِ ہوا میں شیخِ مجددؒ کی لحَد پر
وہ خاک کہِ ہے زیرِ فلک مطلعِ انوار
اس خاک کے ذرّوں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار
وہ ہند میں سرمایۂ ملّت کا نِگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
یعنی حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کی قبر انوار اس نیلے آسمان تلے انوار و تجلیات کا منبع و مطلع ہے۔ آپ کی قبر مبارک کی خاک اس قدر تابندہ و روشن ہے کہ فلک کے ستارے اس کی طرف دیکھ شرمندہ ہیں کیونکہ اس خاک زمین میں ایک صاحب اسرار و حقیقت آرام فرما ہیں۔ اور وہ صاحب معرفت ایسا ہے کہ کسی فرعونِ وقت کے سامنے جھکنا اس کی فطرت میں نہیں ہے اگر اس کی گردن جھکتی ہے تو بارگاہ رب العزت میں جھکتی ہے اور آج بھی اگر اولیاء کے دلوں میں عشق و مستی کی حرارت ہے تو یہ اسی مرد قلندر کی حرارت ایمانی کا فیضان ہے۔ یہی وہ ہستی ہیں جنہوں نے حکم خداوندی سے ہندوستان میں ملتِ اسلامیہ کے ایمان و اسلام کی حفاظت فرمائی۔
سید ہجویرؒ اور مجدد الف ثانیؒ، علامہ اقبال کی نظر میں
Oct 05, 2020