یوں تو وزیراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں جہاں امت مسلمہ اور دیگر اقوام کے علاوہ دُنیا کی بڑی طاقتوں کی طرف سے قوت آزمائی ،فوجی قبضوں کے زریعے انسانی اکژیت کو اقلیت میں بدلنے اور عالمی کساد بازاری پر تفصیلی مگر مددلل روشنی ڈالی وہاں ترقی پذیر ملکوں کی طرف سے دوسرے ملکوں کو منی لانڈرنگ کے ایشو کو بھی بڑی عمدگی سے عالمی فورم پر پیش کیا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ منی لانڈرنگ کے علاوہ دیگر جن جن عالمی مسائل پر وزیر اعظم نے بات کی وہ مسائل بہت اہم اور قابل غور ہیں مگر جہاں تلک منی لانڈرنگ کی معاشی وباء کا تعلق ہے تو یہ حالیہ کورونا وباء سے کہیں زیادہ مہلک اور تباہ کن تصور ہوتی ہے ، اس لئے بھی کہ اگر ملک ہوگا تو ملک دشمنوں سے بھی دو دو ہاتھ ہو سکیں گے تو اسلامو فوبیا کا مقابلہ بھی مل کر کیا جانا ممکن ہو سکے گا ۔ اگر خدا نخواستہ کورونا لاحق ہو جائے تو ظاہر ی سی بات ہیکہ اس سے نمٹنے کیلئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر پیسے نہ ہوں تو علاج معالجہ نہیں ہو سکتا او ر علاج معالجہ نہ ہو تو انسان کے زندہ رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بالکل اسی طرح معاشی آکسیجن کے بغیر کسی بھی ملک کا زندہ رہنا ممکن نہیں ہو سکتا اور وہ بڑی طاقتوں کا نوالہ بن کر اپنی خود مختارانہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔پاکستان کا اوور آل جا ئزہ لیا جائے تو کچھ ایسی ہی صورتحال ابھی تک صاف دکھائی دیتی رہی ہے کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بڑی طاقتوں کا ایک طرح سے نوالہ بنتے ہوئے اپنے ستر ہزار سے زائد فوجی و سول جانوں کا نقصان کر بیٹھا۔یہ معاشی بدحالی ہی تو تھی جس نے ہمیں بڑی طاقتوں کے آگے جھکنے پر مجبور کیا ۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطا ب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وائٹ کالر کرائم کے زریعے ہر سال ایک کھرب ڈالر کی منتقلی کی جاتی ہے ،بیس سے چالیس ارب ڈالر کر پٹ
وائٹ کالر جرائم کرنے والوں کے زریعے رشوت وصول کی جاتی ہے جبکہ سات کھرب ڈالر محفوظ پناہ گاہوں میں رکھے جاتے ہیںاور ملٹی نیشنل کمپنیاں ہر سال پانچ سے چھو سو ارب ڈالر کا ٹیکس چوری کرتی ہیں ۔اس تنا ظر میں اگر پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیںکہ موجودہ حکومت کی طرف سے ملکی وسائل کی بے دریغ لوٹ مار اور پھر اس دولت کی منی لاندرنگ کیخلاف جو خصوصی مہم جاری ہے وہ قابل تعریف ہے ۔یہ ہماری ملکی اشرافیہ کی قابل مذمت مہربانی ہی تھی جس کا پودا قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصہ بعد لگنے کے بعد وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ تقویت پکڑتے ہوئے دو ایک دھائی پہلے تک تناور درخت بن گیا ،غریب، غریب سے غریب اور امیر ،امیر سے امیر ہونے لگا اور پھر امیر بھی ایسا بنا کہ’’ امیر دولت ‘‘ بن کر امیر ِ سلطنت کے مقابل آکھڑا ہوا ۔امیرِسلطنت باجود کوشش بسیار کے ملکی خزانے سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے میں کامیاب نہیں ہو پار ہے جبکہ امیر دولت ملک سے باہر اسی لوٹی دولت کے مزے اڑا رہے ہیں ۔اور یہ سب کچھ ہو کیسے رہا ہے ،یہ امیرِ سلطنت اتنا بے بس کیوں ہیں کہ وہ اپنے ہی ملک کے سرکاری خزانوں کی لوٹی دولت واپس نہیں لا پارہے،اب اصل سوال یہی ہے کہ لوٹی دولت واپس کیوں نہیں لائی جا سکتی تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کی روک تھام کا کوئی قانون ہے نہ ہی کوئی قانونی راستہ ۔اسی لئے وزیر اعظم نے اس پر خصوصی فوکس کرتے ہوئے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں عالمی برادری سے منی لانڈرنگ کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات اُٹھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کی حکومت کو ملک سے کر پشن کے خاتمے کا مینڈیٹ ملا ہے جسے وہ ہر صورت انصاف کرنا چاہتے ہیں ۔اس حوالے سے انہوں نے وائٹ کالر کرائمز کے خاتمے کیلئے اہم تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر ملکوں سے چوری کئے گئے اثاثوں ،رشوت اور جرائم سے حاصل کی جانے والی رقم فوری طورواپس کی جائے اورایسے ممالک جہاں یہ دولت محفوظ کی گئی ہے وہاں کے حکام اپنے مالیاتی اداروں کے خلاف کاروائی کریں ،کرپشن اور رشوت میں سہولت فراہم کرنے والوں کی کڑی نگرانی ہی نہیں ان کے خلاف کاروائی بھی کی جائے ۔غیر ملکی کمپنیوں کی بینی فیشل اونر شپ سے متاثرہ متعلقہ حکومتوں کو فوری آگاہ کیا جائے جبکہ اقوام متحدہ کو رقوم کی غیر قانونی منتقلی سے متعلقہ مختلف سرکاری و غیر سرکاری باڈیزمیں دلچسپی رکھنے والے ممالک کو شامل کیا جائے اورباڈیز کے کام کو مربوط بنانے اور اس کی نگرانی کیلئے مکینزم وضع کرنا چاہیے ۔
جہاں تک وزیر اعظم کے جنرل اسمبلی جیسے فورم پر منی لا ندرنگ اور اس کے سدباب کیلئے عالمی سطح پر قوانین اوردیگر اقدامات کی ضرورت پر زور دینے کی بات کا تعلق ہے تو یہ بہت ہی زیادہ قابل قدر بات ہے اور یہ ہر ترقی پذیر ملک خصوصاًپاکستان کی ضرورت بھی ہے مگر دوسری طرف دیکھا جائے تو اس قسم کی عالمی قانون سازی عمل میں آنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ ہم اپنے معاشی مسائل کو دیکھ کر بات کر رہے ہیں جبکہ بڑی طاقتوں کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں جن کا اصل مقصد چھوٹے غریب ممالک خصوصاً پاکستان جو ان ہی عالمی طاقتوں جن سے ہم اصلاح کی امید لگا لیتے ہیں کا معاشی و فوجی طور پر طاقت ور ہونے کا اصل مقصد ہی محکوم و غلام بنانے کا ہوتا ہے جیسے دہشتگردی کی حالیہ جنگ میں امریکہ پاکستان کے خلاف اس کا ثبوت فراہم کر چکا ہے جبکہ یو این او کی امریکہ کے آگے ثانوی حیثیت بھی ساری دُنیا کے سامنے ہے تو ایسے میں ہمیں اپنے تئیں ہی کچھ کرنا ہوگا ہمیں سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ کے خاتمے کیلئے کچھ الگ سے خصوصی اقدامات اُٹھانے ہونگے تاکہ آئندہ کیلئے منی لانڈرنگ ممکن نہ ہو سکے ،اب تک جو ہوا سو ہوا اب اسے روکنا ہوگا تاکہ آئندہ نہ ہو اوریہی موجود ہ حکومت کا وہ کارہائے نمایاں ہوگا جو اسے دوسری حکومتوں سے ممتاز بنائے گا۔ ہم صرف موجودہ امیرِ سلطنت ہی کو نہیں آئندہ آنے والے اُمراء سلطنت کو بھی اُ مراء دولت پر حاوی دیکھنے کے خواہشمند ہیں اورقومی دولت کی لوٹ مارکے حق میں نہیں چاہے اس میں کوئی بھی جماعت ملوث ہو ۔