میاں نواز شریف کی مشکوک ملاقات خبروں میں ہے کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے دشمن ملک بھارت کے اہم فوجی افسران سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان حالات میں ایسی ملاقاتوں کا ہونا نہایت حیران کن، پریشان کن اور خطرناک بھی ہے۔ ان ملاقاتوں کی حقیقت کیا ہے۔ اس میں کسی بھی طرف سے صرف بیان بازی یا الزامات نہیں ہونے چاہئیں۔ اس بارے مکمل ثبوت اور شواہد کے ساتھ بات آگے آنی چاہیے۔ مکمل تحقیقات، ناقابلِ تردید ثبوت و شواہد کے ساتھ مقدمہ ہر قسم کی عدالت میں جانا چاہیے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو حکومت کو اس بارے کوئی نرمی کرنے کی ضرورت نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کسی قسم کی غیر ذمہ داری بھی ناقابل معافی سمجھی جائے گی۔ میاں نواز شریف کو بھی اس حوالے سے اپنا موقف مکمل ثبوت اور شواہد کے ساتھ پیش کرنا ہو گا۔ انہیں مفرور ہونے کے باوجود ہر قسم کی تقریر کی آزادی ملی، ان ہر غداری کے مقدمے کی ہم نے مخالفت کی لیکن اگر انہوں نے بیرون ملک رہتے ہوئے بھارتی فوجیوں سے ملاقاتیں کی ہیں تو پھر انہیں بھی معافی نہیں ملنی چاہیے۔ وہ پاکستان میں ن لیگ سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی فوج کے ساتھ ملنے سے تو روک رہے ہیں جبکہ عین اسی وقت وہ خود بھارتیوں سے ملتے رہیں یہ کیسا دوہرا معیار ہے۔ بھارت ہمارا دشمن ملک ہے وہ پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں پر حملے کر رہا ہے۔ کشمیریوں کا خون بہایا جا رہا ہے، پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو بھارتی مدد حاصل ہے، پاکستان میں علیحدگی پسندوں کی تحریک کے پیچھے بھارت ہے ان حالات میں ایک ایسا شخص جو تین مرتبہ ملک کا وزیراعظم رہا ہو وہ اپنی فوج کو تنقید کا نشانہ بنائے اور بیرون ملک دشمن بھارت فوجیوں سے ملتا رہے یہ ناقابل قبول اور ناقابل معافی ہے۔ میاں نواز شریف کا رویہ بھارت کے حوالے سے ہمیشہ نرم رہا اور دفاعی اداروں سے ان کے خراب تعلقات کی سب سے بڑی وجہ ان کا بھارت کی طرف غیر ضروری جھکاؤ ہی تھا۔ یہ ملاقاتیں اسی تناظر میں دیکھی جائیں گی۔ اب یہ کھیل ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ یہاں فریقین کی طرف سے الزامات کے بجائے ثبوت و شواہد پر ہی بات ہونی چاہیے۔ میاں نواز شریف کی ان ملاقاتوں پر بیان بازی کے بعد حکومت بھی یہ ذ ہن میں رکھے کہ اسے بھارت کے حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرنا ہو گی۔ دشمن و قاتل نریندرا مودی کو پیغامات بھجوانے یا رابطے کرنے یا امن کے لیے بات چیت کی دعوت دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ملک بھر میں حکومت میں شامل جماعتیں اور حزب اختلاف سڑکوں پر ہے۔ احتجاج کا موسم ہے۔ ملک میں موسمی تبدیلی کے ساتھ ساتھ سیاسی ماحول میں تبدیلی بھی واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔ اپوزیشن کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے اس نے مستقبل کے لیے اپنا حلوہ اکٹھا کرنے کی حکمت عملی ترتیب دینا ہوتی ہے اس معاملے میں حزب اختلاف جس انداز میں آگے بڑھ رہی ہے آنے والے دنوں میں حکومت کے لیے مسائل ہو سکتے ہیں بلکہ حالات خطرناک حد تک بگڑنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔ یقیناً آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرے گا کہ جب تمام ریاستی ادارے حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں تو پھر حالات خطرناک حد تک کیوں بگڑ سکتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ عوامی مسائل کا حل نہ ہونا ہے۔ گذشتہ روز اپوزیشن کی طرف سے عوامی مسائل بالخصوص ہر روز بڑھتی ہوئی مہنگائی پر آواز بلند کی ہے۔ ہمارے پیارے سراج الحق نے جس انداز میں حکمرانوں کا للکارا ہے اس جذبے، سچائی اور دیانتداری کے ساتھ ملک کا کوئی سیاستدان حکمرانوں کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ خوش قسمتی ہے سراج الحق جیسے ایماندار، محب وطن، درد مند، عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار سیاست دان نظام کا حصہ ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ وہ مرکزی دھارے یا قومی سیاست سے دور ہیں۔ سراج الحق کہتے ہیں کہ چور سابق ہوں یاموجودہ ،سرکاری یا غیر سرکاری سب کا احتساب ہونا چاہئے۔حقیقی احتساب ہو یا باسٹھ تریسٹھ پر عمل ہوجائے تو اراکین اسمبلی کی اکثریت جیلوں میں ہوگی۔
کہتے تو ٹھیک ہیں۔ باسٹھ تریسٹھ میں یہاں بچ سکتے ہیں اللہ کے حضور تو انہیں پھینٹی سے کوئی نہیں بچا سکے گا وہاں تو کسی استعفیٰ کی دھمکی کام نہیں آئے گی۔ سراج الحق اس ملک کی حقیقی آواز ہیں ہم مسلسل کہہ رہے ہیں انہیں گھر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ مہنگائی کے خلاف ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع کریں قوم کو باہر نکالیں، عام آدمی کے مسائل کے کیے میدان عمل میں نکلیں۔ سراج الحق کہتے ہیں جو پی ٹی آئی میں ہوتا ہے اس سے کرپشن کا حساب کتاب نہیں لیاجاتا۔ حکومتی وزیر مشیرکرپشن کریں تو نیب دوسری طرف منہ پھیر لیتا ہے۔ نیب کو اسکا جواب دینا چاہیے کہ یہ دوہرا معیار کیوں ہے۔ کرپٹ کوئی بھی کرپشن کہیں بھی ہو نیب کو عملی طور پر فیس نہیں کیس دیکھنے کی پالیسی پر عمل کرنا چاہیے۔ اس کے بعد امیر جماعت نے کیا شاندار بات کی ہے کہتے ہیں کہ عوام کو آستین کے سانپ ڈستے رہے ہیں۔ یہ سانپ حکمران طبقہ ہے جو حکومت میں آنے کے بعد عوام کو ڈستا ہے ان کا خون چوستا ہے۔ بدقسمتی سے ظلم و جبر کا یہ نظام ہمارے ووٹوں سے ہی قائم ہے۔ ہم پہلے خوشی خوشی ووٹ دیتے ہیں ہھر چند ماہ بعد برا بھلا کہتے ہیں، بددعائیں دیتے ہیں، پتلے جلاتے ہیں کیونکہ اقتدار میں آنے کے بعد حکمران عوام کو نہیں پوچھتے وہ مال بنانے میں لگ جاتے ہیں اور عوام کے مال کو دیمک لگ جاتی ہے۔
سراج الحق کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ قوم مایوسی کا شکار ہے ہر کوئی مہنگائی اور بے روزگاری کا رونا رو رہا ہے۔سیاسی ٹھگوں نے پاکستان کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ لاکھوں نوجوان بے روزگار اور گلے سڑے نظام کی وجہ سے ڈگریاں جلانے پر مجبور ہیں۔پیپلزپارٹی اور ن لیگ سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں۔ علی بابا کو جیل میں ڈال دیا جائے لیکن چالیس چور دائیں بائیں کھڑے رہیں تو جمہوریت پٹڑی پر نہیں کوڑے دان میں چلی جاتی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت میں مہنگائی بے روزگاری بدامنی میں اضافہ ہوا۔ حزب اختلاف کو عوامی مسائل حل کرنے کے لیے سراج الحق کی تقریر کو پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے منشور کا حصہ بنا لینا چاہیے لیکن بدقسمتی ہے کہ پی ڈی ایم میں تو سیاسی جماعتوں کے بجائے پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں جمع ہیں۔ پھر بھی اگر یہ کمپنیاں سیاسی مفادات بھی حاصل کرنا چاہتی ہیں تو انہیں عوامی مسائل کو بنیاد بنا کر ہی سڑکوں پر نکلنا ہو گا ورنہ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے، سکینڈل نکالنے، غیر ضروری بیانات وقت اور سرمائے کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن صدر پی ڈی ایم تو بن گئے ہیں لیکن پہاڑی علاقوں سے انکی شاندار تصاویر دیکھ کر یہ قطعاً نہیں لگتا کہ وہ عوامی مسائل کی وجہ سے پریشان ہیں بلکہ انہیں دیکھ کر تو لگتا ہے آٹا، دال، چینی، گھی، دالیں، سبزیاں، پھل اور دودھ ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔
مریم اورنگزیب نے بھی گذشتہ روز اپنی حکمت عملی بدلتے ہوئے عوامی مسائل پر حکومت کو ہدف بنایا ہے۔ انہوں نے مہنگائی پر توجہ دیتے ہوئے سرکاری اعدادوشمار پیش کیے ہیں اور اس حوالے سے حکومت کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ مہنگائی کے حوالے سے انہوں نے جو کچھ کہا وہ درست ہے چونکہ انہوں نے سرکاری اعدادوشمار پیش کیے ہیں یہ اعدادوشمار زمینی حقائق سے مختلف ہیں۔ حقیقت یہ ہے مہنگائی میں دو سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی کے ساتھ عام آدمی کو بیک وقت تین محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے ایک تو بیروزگاری بڑھی ہے پھر اجرت کم ہوئی ہے اور ہر گھر مسائل میں گھرا ہوا ہے ماہانہ بل اور کرائے دیتے ہیں تو کھانے کو نہیں بچتا کھانے کا بندوبست کرتے ہیں تو بچوں کی فیسیں ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے اگر فیسیں دیتے تو علاج معالجے کے لیے کچھ نہیں بچتا، ان محاذوں پر بیک وقت لڑتے لڑتے عام آدمی کی ہمت جواب دیتی جا رہی ہے۔ حکومت اپنے مسائل گنواتی ہے لیکن بائیس چوبیس کروڑ انسانوں کو اس سے غرض نہیں ہے کہ وفاق اور صوبوں کو کن مسائل کا سامنا ہے انہیں زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وسائل اور بہتر زندگی کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر زندگی مشکل بنتی جائے تو حکومت کی رٹ کمزور ہوتی چلی جائے گی۔ حکومت کو دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ بائیس چوبیس کروڑ انسانوں کی ضروریات پورا کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔
اگر حزب اختلاف نے عوامی مسائل کو ہدف بنایا اور حالات سے تنگ لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہوئے اور اسی ایجنڈے پر حکومت مخالف سرگرمیوں میں لگے رہے تو حکومت کا بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو جائے گا۔ کیونکہ حکومت صرف چند افراد کے اکٹھے رہنے جا چند افراد کے اجتماع یا چند افراد کے ہمخیال ہونے کا نام نہیں ہے۔ یہ بائیس چوبیس کروڑ عوام کی زندگیوں میں آسانی پیدا کرنے، انسانوں کی اتنی بڑی تعداد کے مسائل حل کرنے کا نام ہے۔ اگر بڑی تعداد میں گھروں میں بھوک کے ڈیرے ہوں، بچوی کے لیے تعلیم اور بزرگوں کے لیے علاج مشکل ہو جائے تو عوامی جذبات قابو میں نہیں رہتے۔ احسن اقبال نے بھی حکومت سے مہنگائی پر جواب مانگا ہے۔ حزب اختلاف کے دیگر سیاستدان بھی اسی حوالے سے گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں یہ صورتحال حکومتی وزراء کے لیے اچھی نہیں کیونکہ عوامی مسائل پر بات کرتے ہوئے ان کے پاس کوئی منطق یا دلیل نہیں ہو گی وزیراعظم عمران خان ویسے بھی منطقی اور دلائل سے بھرپور تقاریر یا گفتگو کی ہدایات جاری کر چکے ہیں اس لیے اشیاء ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر دلیل اور منطق صرف ایک ہی قابل قبول ہے اور وہ یہ کہ اشیاء خوردونوش کی مناسب اور بلاتعطل مناسب قیمتوں پر فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور اس راستے میں تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ جو مفاد پرست اس راستے میں آتا ہے اس پر رحم نہ کیا جائے۔ یہ صرف حکومت کو سیاسی فائدہ نہیں دے گا بلکہ اس سے عام آدمی کا بھلا ہو گا اور حکومت کو اپنی ساکھ بہتر بنانے اور ان کے وزراء کو گفتگو کے لیے دلائل اور منطق بھی مل جائے گی۔
بہرحال یہ جو سیاسی محاذ آرائی ہے اس کا انجام خیر کی صورت میں نکلتا نظر نہیں آتا۔ یہ سارے حالات و واقعات بلاوجہ نہیں ہیں۔ اتنی بڑی مشق کی کوئی وجہ نہ ہو عقل تسلیم نہیں کرتی اور اتنی بڑی مشق کا کوئی ہدف نہ ہو دل یہ بھی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ اللہ اس ملک کی خیر کرے اسے آستین کے سانپوں کے حملوں سے محفوظ فرمائے اس ملک کو تاقیامت دائم فرمائے اس ملک کے خیر خواہوں کو طاقت عطائ فرمائے اور اس ملک کے دشمنوں کو نیست و نابود فرمائے، ہمیں ہماری آنے والی نسلوں کو اس دھرتی پر عزت و غیرت جرات و بہادری ایمان و انصاف نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت کے ساتھ زندگی گذارنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین