تجزیہ:محمد اکرم چودھری
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال مشروط طور پر مستعفیٰ ہونے کے لیے تیار ہیں۔ بلوچستان میں تیزی سے بدلتی سیاسی صورتحال میں بلوچستان میں تبدیلی کے واضح امکانات موجود ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو ایک بڑے اور طاقتور سیاسی کھلاڑی کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی بھی ایوانِ بالا میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد بلوچستان میں اپنے سیاسی مستقبل کے لیے جوڑ توڑ کا حصہ ہیں۔ سینٹ سے فارغ ہونے کے بعد وہ بلوچستان میں سب سے اہم سیاسی عہدے کے خواہشمند ہیں۔ موجودہ حالات میں بلوچستان میں سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے۔ کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد میں اس حوالے سے سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال نے عبدالقدوس بزنجو اور محمد صالح بھوتانی کو وزیراعلیٰ نہ بنانے کی شرط پر مستعفیٰ ہونے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ عبدالقدوس بزنجو موجودہ صورتحال میں سب سے اہم سیاسی کھلاڑی کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ وزارتِ اعلیٰ کا امیدوار نہ بننے پر انہیں چار سے پانچ وزارتوں کی پیشکش کی جا چکی ہے۔ انہیں صالح بھوتانی اور تاج جمالی پر کئی حوالوں سے برتری حاصل ہے۔ تاج جمالی کو اپنی جماعت کی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی جبکہ صالح محمد بھوتانی عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں وزیراعلیٰ کا آفس چلانا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ آخری اطلاعات تک جوڑ توڑ عروج پر ہے۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو کے رویے میں لچک پیدا ہوتی ہے یا پھر جام کمال کی سختی نرمی میں بدلتی ہے۔ سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے لیکن اگر تبدیلی اچھے ماحول میں نہیں آتی فریقین کچھ دو کچھ لو پر عمل نہیں کرتے تو آنے والے دنوں میں بلوچستان میں کوئی بھی حکومت ہو اس کے لیے کام کرنا آسان نہیں ہو گا۔ بلوچستان میں آنے والی کسی بھی قسم کی تبدیلی کا ملکی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وفاق کی اور صوبوں کی سطح پر معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے۔ بلوچستان کی تبدیلی سے کسی کو فرق نہیں پڑے گا لیکن وفاق میں ہونے والی تبدیلی سے بلوچستان متاثر ضرور ہوتا ہے۔