پاکستان کرکٹ کا المیہ!

کرکٹ کی زبوں حالی پر اس سے پہلے بھی کئی کالم لکھے ہیں۔ خیال تھا کہ اب کچھ لکھنے کو باقی نہیں بچا! لیکن یہ خیال خام تھا۔ وہ تو بھلا ہو کرکٹ کے ارباب بست و کشاد کا جو اپنی ناقص حکمت عملی، بوالعجبیوں اور بدحواسیوں کے ذریعے راہوار قلم کو سرپٹ دوڑنے کا کوئی نہ کوئی موقع فراہم کرتے ہی رہتے ہیں۔ یہ کھیل کئی اعتبار سے خوش قسمت ہے اور بدنصیب بھی ! خوش قسمت اس وجہ سے کہ ’غربت میں آکے چمکا گمنام تھا وطن میں‘۔ اس کی کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ ساری دنیا بالخصوص یورپ نے اسے منہ لگانے سے انکار کردیا۔ جرمنی کی مخاصمت کا تو یہ عالم تھا کہ ہٹلر نے اس کا کھیلنا تعزیراتی جرم قرار دیدیا۔ اس کا ہر ملک نے اپنے اپنے طریق سے مذاق اڑایا۔ دوسری جنگ عظیم میں برطانوی قیدی کرنل نے دریائے کیوائی پر پل بنانے کی مشقت سے اس لئے انکار کردیا کہ جنیوا کنونشن میں افسروں سے محنت مزدوری کی ممانعت کی گئی تھی۔ اس پر جاپانی کرنل اسے ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کرتے ہوئے بولا، 
Bloody fool, it is war and not the game of cricket. 
لے دے کہ برطانیہ کی کالونی آسٹریلیا رہ گیا تھا۔ یہ ایک طویل سمندری سفر طے کرکے وہاں پہنچتے اور اپنی انا کی تسکین کرتے۔ انہوں نے جزائر غرب الہند کے مختلف ملکوں کو خصوصی رعایت دے کر ایک ٹیم بنانے کا مشورہ دیا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے برصغیر کے چار ممالک ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کو اجازت دے دی جائے کہ وہ ایک گیارہ رکنی ٹیم میدان میں اتاریں۔ ہندوستان بھی ایک کالونی تھا۔ جس طرح کتوں اور ہندوستانیوں کا ریل کے درجۂ اول کے ڈبے میں سفر کرنا ممنوع تھا اسی طرح گورے اپنی خالص ٹیم بناتے لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر چل نہ سکا۔ جیسے جیسے ایمپائر سکڑتی اور مٹتی گئی ہندوستانیوں کو اس کھیل میں شریک کرنا ناگزیر ہوگیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ مقبول ترین کھیل بن گیا۔ وہ لوگ جنہیں اپنے فن پہلوانی، کبڈی اور ہاکی پر ناز تھا وہ روایتی کھیلوں کو بھلا کر اسکے پرستار اور شیدائی بن گئے۔ چنانچہ ایک مفلوک الحال اور راندۂ درگاہ کھیل کا شمار دنیا کے مقبول کھیلوں میں ہونے لگا۔ وجہ؟ سارے یورپ کی آبادی تو برصغیر کی بغل میں سما جاتی ہے۔ چونکہ تمام دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیاں یہاں کاروبار کرتی ہیں۔ انہیں بھی طوعاً و کرہاً اپنی جیب کو ہوا کھلانی پڑی۔ وہ کھلاڑی جو ہمیشہ تنگ دست رہتے تھے سیم و زر میں کھیلنے لگے۔
پاکستان میں بھی بلاشبہ یہ مقبول ترین کھیل ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہندوستان اور پاکستان پنجہ آزما ہوتے ہوئے کھیل کو کھیل ہی رہنے دیتے اس میں سیاست ، تعصب اور کدورت کو داخل نہ ہونے دیتے۔ بدقسمتی سے ایسا ہو نہ سکا۔ ہندوستان نے روز اول سے ہی پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا۔ تقسیم کو 74 سال ہوگئے ہیں لیکن ہندوستان کا ذہن نہیں بدلا ان کی ریشہ دوانیاں اور سازشیں ہنوز جاری ہیں۔ اس کا اثر کھیلوں پر بھی پڑا ہے۔ ’دہشت گردی‘ کو بہانہ بناتے ہوئے نہ تو یہ خود پاکستان کے ساتھ کھیلتا ہے اور نہ دوسرے ملکوں کو کھیلنے دیتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ درپردہ دہشت گردی بھی یہ خود ہی کرتا ہے۔ اس کے ایجنٹ اور گماشتے ہمہ وقت سرگرم عمل رہتے ہیں حالیہ نیوزی لینڈ کے دورے کی اچانک منسوخی کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس سازش کے تانے بانے بھی ہندوستان میں بُنے گئے، اس بات کا ناقابل تردید ثبوت سامنے آچکا ہے۔
جو ٹیم یہاں آئی وہ درحقیقت نیوزی لینڈ کی بی ٹیم تھی۔ ہندوستان کے ڈر کی وجہ سے درجۂ اول کے کھلاڑیوں نے آنے سے انکار کر دیا تھا۔ ہندوستان نے انہیں دھمکی دی تھی کہ پاکستان جانے کی صورت میں انہیں انڈین پریمئر لیگ (آئی پی ایل) کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ انڈین پریمئر لیگ میں چونکہ بہت زیادہ پیسہ ہے اس لیے لالوں کی ترغیب و تحریص اپنا کام کر گئی۔ (جاری) 

ای پیپر دی نیشن