تمام عمر وضع داریوں میں کٹی ۔ اسے عزیز رکھا جو پیارا تھا ہی نہیں۔ پاکستان ہی نہیں دنیا کے حالات کچھ پتہ نہیں کس طرف جا رہے ہیں انسانیت دم توڑ چکی ہے۔ ہر طرف جھوٹ، دھوکہ اور فریب کی کالی آندھی چل رہی ہے۔ ہر آدمی جیسے اپنی نا اہلی چھپا کر اپنی ہر ناکامی دوسرے کے سر تھونپ رہا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ جن کیلئے ہزاروں قربانیاں دی جائیں وہ ایک لمحے میں سب کچھ بھول جائیں اور اپنی ساری ناکامیوں کا ذمہ دار اپنے محسنوں کو ٹھہرادیں۔ کچھ سمجھ نہیں آتی کہ خرابی کہاں ہے۔ ویسے ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ غصہّ ہمیشہ کمزور پر آتا ہے۔ میرا تجربہ یہی ہے کہ کچھ لوگوں سے دوستی کی نسبت بہتر ہے کہ دشمنی ہو کیونکہ وہ دوست بن کر زیادہ مارتے ہیں ۔ ویسے انسانی فطرت ہے کہ جب تک آپ اپنا دفاع کرتے رہیں گے‘ مخالف اٹیک کرتا رہتا ہے اور جب آپ اٹیک کرتے ہیں تو مخالف کو اپنے دفاع پر آنا پڑتا ہے۔ بالکل یہی مثال ہمارے پڑوسی ملک کی ہے۔ وہ با ربار ہم پر اٹیک کرتا ہے۔ اور ہم اپنے دفاع پر لگے ہوئے ہیں۔ اور دنیا کو شور ڈال رہے ہیں۔ سال ہا سال سے وہ باز نہیں آ رہے ہمارے ملک میں جتنا خون بہا ہے ہم نے صرف اپنا دفاع کیا ہے۔ دنیا بالکل جیسے بے حس ہو گئی ہے۔ اب ہمیں بالکل کھڑا ہونا پڑے گا اور جس دن ہم نے دشمن کے بچوں کو پڑھانے اور چائے پلانے سے جواب دے دیا اس دن سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ پاکستان کے بیرونی دشمنوں سے زیادہ خطرہ ان کے ایجنٹوں سے ہے جو معلوم نہیں کس کی آشیر باد سے بر سر پیکار ہیں ۔
ہم نے آج تک پینڈورا بکس کھلتے دیکھاہے ۔ پینڈورا پیپر آتے پہلی دفعہ دیکھ رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے علی بابا چالیس چور والی کہانی پرانی ہو گئی ہے۔ اب تو چراغ لے کر ایماندار تلاش کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ہر معزز چھپا ہوا رستم نکلتا ہے اور وزیر اعظم نے احتساب پہلی ترجیح ضرور رکھا ہے مگر لگتا ہے کچھ ڈرائی کلین کی دکانیں کھل گئی ہیں ۔ چیئر مین نیب اور انکی ٹیم انتہائی لگن کے ساتھ ہر کام کر رہی ہے۔ مگر تین سال میں ہر طرف سے "ہم بے گناہ ہیں ہمارے ساتھ ظلم ہورہا ہے"کی آوازیں آرہی ہیں ۔ عدالتیں اپنا کام ضرور کر رہی ہیں مگر عوام کے ذہنوں میں کچھ سوال بہر حال موجود ہیں۔ "ہن اِک ہو رسیاپا آگیا اے" دیکھیں وزیر اعظم کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ ویسے مجھے یقین ہے کہ وہ وہی کریں گے جو انھوں نے اپنے ووٹ بیچنے اور احتساب کی زد میں آنے والوں کے ساتھ کیا تھا۔ پاکستان میں ہر غلط کام اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر ایسے کرتے ہیں "جیویں پاکستان ایہناں دے ابے ّ دا ا ے "ْ۔
لوگ بھوک سے مر رہے ہیں ان کے دولت سے پیٹ ہی نہیں بھر رہے ۔ جو لوگ بھوک پیاس اور موسم کی سختی برداشت کر کے لائن میں لگ کے انھیں ووٹ ڈالتے ہیں اور بہت سی غریب عورتیں سارا سارا دن اپنے بھوکے بچوں کو گود میں اٹھائے ووٹ ڈالنے کیلئے اپنی باری کی منتظر رہتی ہیں کہ شاید اب کی دفعہ ان کے بچوں کا کوئی خیال کرے گا۔ ایساکبھی نہیں ہوتا اور غریب لاچار اور مسکین لوگ یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ :
میں ڈھڈوں بھکا محرما میرے بھک نے کھچے ساہ
مینوں جنت حوراں دسنا ایں کوئی چج دا لارا لا
میں مر رہا ہوں پھر آئے صدا کن فیک
دبایا جائے مٹا کے پھر ابتداء سے مجھے
میں کچھ نہیں ہوں تو پھر کیوں مجھے بنایا گیا
یہ پوچھنے کی اجازت تو ہو خدا سے مجھے
آپ خود فیصلہ کر لیں کہ بھوک سے مرتے لوگ کب تک محلات میں بیٹھے اشرافیہ کو بیسیوں ڈشیں کھاتے دیکھ سکیں گے۔ ویسے میرے خیال سے زیادہ دیر نہیں۔ "اجے وی موقع اے دال روٹی سستی کر دیو چنگے رہ جائو گے بھاہ جی "جنرل بخشی کو روتے ہوئے یہ کہتے دیکھ کر ہم اکیلے رہ گئے اور ہندوستان کا سارا میڈیا بھی رو رہا ہے۔ اس پر خوش ہونے کی بجائے اپنی کشمیری بیٹیوں کیلئے کچھ خاص کر جائیں وہ ہماری منتظر ہیں۔جو کبھی کبھی سوچتی تو ضروہوں گی کہ:
یہ ہے دنیا یہاں کتنے اہل وفا
بے وفا ہو گئے دیکھتے دیکھتے
ذرا سنو! مجید نظامی صاحب کی روح بھی قبر سے پکار رہی کہ کشمیر منت سے نہیں ہندو بنیئے کی مرمت سے آزاد ہو گا۔ پتہ ہے مجید نظامی صاحب یہ کہتے کہتے قبر میں چلے گئے کہ ـ"ایک میزائل کشمیر کی آزادی کیلئے چلائو بیشک مجھے اس کے ساتھ باند ھ کر چلا دو ـ"ویسے میں ہمیشہ یہ سوچتا ہوں کہ کوئی عام آدمی بھوک مٹانے کیلئے چوری کرے تو اسکی سزا اور ہے اور جو کاروباری سیاستدان چوری کرے اسے کم از کم عوامی نمائندگی کیلئے نا اہل کر کے گندے نالے میں پھینک دینا چاہیے۔" اک واری ایہہ کرنا پئے گاویسے گل نئی بننی "۔ پاکستان سنوارنے کا آخری موقع ہے اسے ہاتھ سے نہیں جانا چاہیے یہ جو بے ایمان لٹیرے طرح طرح کی جیکٹیں پہن کر منہ نکال کر بڑے مقرر بن کے آتے ہیں ان کا پاکستان پر کچھ نہیں لگا نہ انھیں معافی ملنی چاہیے بلکہ یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ یہ کرپٹ لو گ بڑے طاقتور ہیں انھوں نے دوبارہ آ ہی جانا ہے۔ میں کسی خاص جماعت کیلئے نہیںکہہ رہا ساری جماعتوں میں ایک سے بڑھ کر ایک علی بابا بیٹھا ہے ۔ میرا تعلق میو راجپوت قوم سے ہے ۔ ہمارے ایک شاعر نے بڑی خوبصورت بات کی ہے کہ :
باڑ کری ہی کھیت کو باڑی ہی کھت کو کھائے
راجہ ہو کے چوری کرے انصاف کون کر جائے
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد مہنگائی بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ رشوت بھی بڑھ گئی ہے رشوت لیتے وقت لوگ یہ بھی کہتے کہ "اپنی پی ٹی آئی کی تنظیم کو الیکشن ہارنے پر ضرور پوچھیں" عجیب تماشہ ہے لوگ کہتے ہیں پہلے میرا کام کرنے کو دل نہیں کرتا تھا پھر میں نے محنتی لوگوں کے ساتھ بیٹھنا شروع کر دیا اب ان کا بھی کام کرنے کو دل نہیں کرتا۔ احتساب اور ٹورازم آپکی ترجیحات میں ہیں۔ آپکے علم میں ہونا چاہیے کہ سینکڑوں لوگوں کو پاکستان ٹورازم سے نکال دیا گیا اور پی ٹی ڈی ایل کے تمام موٹلز دو سال سے بند ہیں انھیں لیز پر دینے کے چکر میں بند کر کے بر باد کر دیا گیا ہے انھیں فوری کھولنا چاہیے۔ وقت کم مقابلہ سخت ہے غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔