وکی لیکس اور پانامہ لیکس کے بعد پنڈورا لیکس کرپشن کی تیسری لہر ہے۔ کرپشن کی چوتھی لہر کورونا کی طرح کا فی خطرناک ہو گی۔ کرپشن کے مہا دیوتا ئوں سے چوتھی لہر میں پردے اٹھائے جا ئیں گے۔ چہرے پر شرا فت کے لبادے اوڑھ کر کرپشن کی گنگا میں نہا نے وا لوں نے ثابت کر دیا کہ وہ اللہ کے بجائے دولت کو خدا سمجھتے ہیں۔ سمجھنے وا لوں کے لیے تو اشا رہ کافی ہو تا ہے کہ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں۔ وہ لوگ جو دولت کے پیچھے بھا گتے بھاگتے ہا نپنے لگتے ہیں۔ ان میں سے اکثر کا انجام بی پی، شوگر، ہارٹ اٹیک، کینسر اور پچھتاوا ہو تا ہے۔ زندگی بھر دولت جمع کرنے اور اثاثے بڑھانے کے چکر میں یہ لوگ زندگی کے سنہری پل، جوانی کے قیمتی لمحات اور اپنوں کے پیار سے محروم ہو جاتے ہیں۔ انسان کو ضروریات زندگی پورا کرنے کے لئے ایک حد تک دولت کے ضرورت ہو تی ہے مثلاََ اچھا گھر، اچھی گا ڑی، مناسب بینک بیلنس اور اتنی آمدن کہ آپ ایک با عزت اور خو شحال زندگی گزار سکیں۔ ضرورت سے زیادہ دولت کی طلب حیوا نی جذبہ ہے۔ دنیا میں سب سے خوبصورت، با وقار، با مقصد اور خو شحال زندگی استاد، ادیب، دا نشور، پائلٹ اور آرکیٹکٹ گزا رتے ہیں۔ استاد اور ادیب کی زندگی میں بہت ڈسپلن، وقت کی قدر ، جذبوں کا احساس اور زندگی سے محبت کا احساس ہو تا ہے۔ پاکستان میں ادیب دانشور کی قدر نہیں ورنہ ہر ملک کا ادیب متمول اور خو شحال ہے کیونکہ اسے ایک کتاب پر اتنی را ئلٹی ملتی ہے کہ اُسے زندگی بھر جاب نہیں کرنی پڑتی۔ اس کے با وجود آپ پاکستانی ادیب کو دیکھیں۔ وہ ایک پُرسکون اور بھرپور زندگی گزارتا ہے۔ بیماریوںسے دُور رہتا ہے۔ اگر چہ ہر ادیب کی زندگی میں کچھ محرومیاں اور تکلیفیں بھی ہو تی ہیں مگر وہ انہیں خو د پر طا ری نہیں کرتا بلکہ افسانہ نا ول کہانی لکھ کر اپنا کیتھارسس کر لیتا ہے۔ اسی طرح استاد اپنے شا گردوں سے مکا لمہ کر کے با لکل ہلکا پھلکا ہو جا تا ہے۔ استاد اور ادیب کی زندگی میں خوف، انتشار، انتقام اور سا زشیں نہیں ہو تیں۔ ان کا ڈسپلن اور وقت گزا رنے کا احساس، محبتوں سے گندھی زندگی انھیں منظم اور مضبوط رکھتی ہے۔ محبت اور اپنا ئیت دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں سب سے اچھی، سا دہ، صحتمند، منظم، کا رآمد اور شا ندار زندگی ادیبوں دانشوروں کی ہو تی ہے۔ سب سے لمبی زندگی ادیب کی ہو تی ہے۔ اس کے بعد استاد کی زندگی ہوتی ہے۔ پاکستان میں کرپشن کے سب سے زیادہ ریکارڈ ہمارے حکمرا نوں اور سیاستدانوں نے توڑے ہیں۔ پاناما لیکس میں شریف فیملی بے نقا ب ہو ئی تھی اور آج تک خود کو شریف ثا بت نہیں کر سکی۔ زرداری کی کرپشن تو زباں زدِعام ہے۔ پہلے انہیں مسٹر ٹین پرسینٹ کہا جا تا تھا۔ اب تو کرپشن کا کنگ کہا جا تا ہے۔ پنڈورا لیکس میں شوکت ترین، فیصل وائوڈا، مونس الٰہی، علیم خان یعنی پی ٹی آئی کے چار سرکردہ وزرا ء سا منے آ چکے ہیں۔ پنڈورا لیکس اگر پی ٹی آئی کی با ریکی سے تحقیق کرتی تو شا ید آج پی ٹی آئی کا دھڑن تختہ ہو چکا ہو تا۔ عمران خان نے جو ٹویٹ کیا ہے ۔ محض عوا م کو جھا نسہ دیا ہے۔ اُس کا وا ضح ثبوت جہا نگیر ترین، مخدوم خسرو بختیار، خسرو جواں بخت، علیم خان، زلفی بخاری وغیرہ ہیں۔ کسی کے خلاف آج تک کیا چا رہ جو ئی ہو ئی؟ نواز شریف کا دا ماد علی اسحاق ڈار یا شہباز شریف کا دا ماد ہو، سب نے کرپشن کے ریکارڈ تو ڑے ہیں۔ حکومتی اپوزیشن شخصیات سمیت 700پاکستانیوں کی آف شور کمپنیاں ہیں۔ اب جب سب کے چہروں سے پنڈورا لیکس نے پردہ ہٹا دیا ہے تو پو چھنا فقط یہ تھا کہ آپ سب کرپٹ لو گوں کی عزت میں اضا فہ ہو ا ہے یا ذلت میں ؟ کیا یہ دولت آپکی عزت بچا سکے گی؟ انسان ایک روٹی کھاتا ہے۔ ایک چار پائی پر سوتا ہے۔ ایک گھر میں ایک وقت میں رہ سکتا ہے اور ایک گا ڑی میں بیٹھ سکتا ہے۔ پھر چھ چھ گا ڑیوں، ہیلی کاپٹر، جہاز، سات سات کو ٹھیوں، فا رم ہا ئوسز، پندرہ بیس پلاٹ، چا ر پانچ بینکوں میں اکائونٹس کس لیے؟