آف شور کمپنیاں بے نقاب نیا پنڈورا باکس کھل گیا

ندیم بسرا ،رفیق سلطان
پنڈورا  پیپرز نے پوری دنیا میں بزعم خود بڑے عزت دار اور معتبرشخصیات سمیت لوٹ مار اور کرپشن میں ملوث دولت مندوں کے مکروہ چہروں کو اس مہذب معاشرے کے سامنے  عیاں کردیا ہے کہ کس طرح باعزت طور پر پہچانے جانے والے لوگ کون کون سی  خرافات کا  حصہ رہے ہیں؟ کس طرح ناجائز دولت کو تحفظ دے رہے ہیں۔پاکستان سمیت دنیا کے 90 ممالک کے 330 طاقتور شخصیات کے بیرون ملک اثاثوں پر پنڈورا بکس نے ان سب کے چہروں سے پردہ اٹھادیا ہے۔ پنڈوراباکس دراصل یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ایک خاص باکس ہے، جس میں یونان کے لوگ اپنی  جیولری، پیسے ،کاغذات اور دیگر قیمتی اشیاء چھپا کررکھتے تھے اور اس کو تالا لگا دیتے تھے ۔  تاریخ میں اس بات کا ذکر بھی ملتا ہے کہ پہلی عورت جس کا یونان کی دھرتی پر وجود قائم ہوا، اس کو ’’پنڈورا‘‘ کہا گیا۔ اب پنڈورا بکس جو آیا ہے اس کا نظریہ انسانوں کو سزا دینے کے طور پر لیا جاتا رہا ہے کیونکہ پرانے یونانی اپنا پیسہ، زیورات، کاغذات چھپانے کیلئے پنڈورا باکس  کا استعمال کرتے تھے اس لئے آج جدید دنیا میں تہذیب یافتہ معاشرے میں رہنے والے لوگوں کا برا چہرہ عیاں کرنے کیلئے اس پنڈورا باکس کی علامت کو استعمال کیا گیاہے۔ گزشتہ دہائیوں میں ایک اور لفظ بولا جاتا تھا وہ لفظ ’’PP‘‘کا تھا یہ الفاظ ’’Particular Person‘‘  کے الفاظ پر مشتمل  تھا۔ یہ ٹرم اس وقت بولی جاتی تھی جب ہر گھر میں لینڈ لائن فون موجود نہیں تھا ان کے ہمسائے میں ٹیلی فون لگا ہوتا تھا جب کوئی اپنے ہمسائے کا نمبر دیتا تو ساتھ ’’پی پی PP‘‘ لکھ دیتا۔ فون کرنے والے کو سمجھ آجاتا تھاکہ اس کے ہمسائے میں فون لگا ہے بدقسمتی سے پاکستان میں ’’PP‘‘لفظ بدل کر ’’Peon To President‘‘بن گیا ہے یعنی کرپشن کے حوالے سے بہت ساری چیزیں آسان ہوتی ہیں۔ پاکستان میں سب سے چھوٹا سرکاری عہدہ Peon اور سب سے بڑا عہدہ President کاہے یعنی اس ملک میں نیچے سے اوپر تک کرپشن کرنا اور کام نکلوانا  ہی  رواج بن  گیاہے ۔ اس صورتحال میں پنڈورا بکس میں پاکستان کے لوگوں کا نام آنا کوئی بڑی اچھنبے کی بات نہیں  رہی ہاں اگر پنڈورا بکس کی جگہ پنڈورا کنواں کھل جائے تو شاید پاکستان جیسے معاشرے کیلئے  یہ حسب حال ہو  گا کیونکہ ہمارے معاشرے میں جہاں لوگ خود بات کرتے ہیں کہ بازار میں خالص چیزیں دستیاب نہیں مثال کے طور پر ’’دودھ‘‘ مارکیٹ میں غیرمعیاری دستیاب ہے مگر اس کے باوجود شہری دودھ خرید نے پر مجبور ہوتے ہیں تو اس طرح کی کرپشن اور الزامات سے بھرے بکس کوبھی  قبول کرنا ہی پڑتا ہے ۔
 اب  اگربات کریں  ملک میں موجودہ  پی ٹی آئی حکومت کی عمران خان کا حکومت میں آنے سے پہلے ایک ہی نعرہ تھا کہ ملک میں کرپشن ناسور ہے اور اس کا ختم ہونا ہی ملک کی ترقی کیلئے ضروری ہے تو اب ان ناموں کے بعد اصل ٹیسٹ کیس پی ٹی آئی اور خود وزیراعظم عمران خان کا ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں ؟کیونکہ شوکت ترین، خسرو بختیار، مونس الٰہی، فیصل واوڈا ،علیم خان حکومت کا حصہ تو بہرحال ہیں اور وہ فیصلہ سازی، قانون سازی میں بھی مکمل شریک ہیں۔ جب حکومت کی بات ہوتی ہے تو نظر یہی آتا ہے کہ حکومتی شخصیات بھی اس مبینہ کرپشن میں برابر ملوث ہیں ۔ پھر بھی یہ اطمینان بخش بات  ہے  کہ وزیراعظم عمران خان نے پنڈورا پیپرز میں شامل پاکستانیوں سے تحقیقات کا اعلان کردیا اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ وہ پنڈورا پیپرز کا خیر مقدم کرتے ہیں، پنڈورا پیپرزنے اشرافیہ کی ناجائز دولت،ٹیکس چوری اور بدعنوانی سے جمع  کی گئی دولت اور  مالیاتی 'پناہ گاہوں'کو بے نقاب کر دیا ہے ِِِِ۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے نے چوری شدہ اثاثوں کا تخمینہ7ٹریلین ڈالر لگایا ہے، یہ دولت بڑے پیمانے پر آف شور ٹیکس ہیونز میں منتقل کی گئی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے پینڈورا پیپرز میں پاکستانی سیاستدانوں، سابق فوجی افسران اور ان کے اہلِ خانہ سمیت پاکستانیوں کی آف شور کمپنیز کی معلومات سامنے آنے کے بعد ان تمام افراد سے جواب طلبی کے لیے خصوصی سیل قائم کر دیا ہے۔اس بات کا اعلان وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کیا۔فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’پنڈورا لیکس کی تحقیقات کے لیے وزیر اعظم پاکستان نے وزیر اعظم انسپکشن کمیشن کے تحت ایک اعلیٰ سطح کا سیل قائم کیا ہے۔‘ان کے مطابق ’یہ سیل پنڈورا لیکس میں شامل تمام افراد سے جواب طلبی کرے گا اور حقائق قوم کے سامنے رکھیں جائیں گے۔
اس سے قبل  ملک میں ’’پانامہ لیکس‘‘ کا سیزن ون گزر گیا جس میں اس وقت کے سابق وزیراعظم زد میں آئے اور انہیں گھر جانا پڑا۔  اگر حکومت نے حالیہ لیکس اور الزامات پر کارروائی نہ کی تو تو پھر آئندہ الیکشن میں عوام اس جماعت کو ووٹ دے گی جو اپنے منشور میں یہ الفاظ شامل کرے گی کہ صرف اس جماعت کو منتخب کیا جائے جس جماعت نے سب سے کم کرپشن کی ہے۔ کیونکہ ملک کی سبھی جماعتوں جیسے مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، جے یو آئی (ف)، مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم سمیت ہر کسی پر یہی الزامات رہے ہیں ۔ اگر کسی حکومت نے ان الزامات کے سلسلے میں  مؤثر حکمت عملی نہ بنائی  تو  لوگوں کا اس نظام سے یقین اٹھ جائے گا۔ اب سیاستدانوں کے ساتھ تاجراور میڈیا ہائوس کے مالکان کا نام بھی آیا ہے تو ایسے معاشرے میں جہاں اس کے سبھی ستونوں پر دراڑیں آجائیں وہاں عمارت کا قائم رہنا اللہ کے معجزے سے کم نہیں ہے۔ انگریزی کا ایک معقولہ ہے کہ ’’it will be just like another day‘‘ یعنی اس کے بعد کسی نئی چیز کا انتظار کرے۔ دراصل اس قسم کے ’’مالیاتی سکینڈل‘‘ کا اثر ان معاشروں پر پڑتا ہے جہاں کرپشن اور بدانتظامی نام کی کوئی چیز نہ ہو تو وہاں پنڈورا بکس ایک ایٹم بم ثابت ہوتا ہے۔ پاکستان جہاں کبھی ’’آٹا‘‘’ کبھی ’’چینی‘‘ کبھی ’’ویڈیو سکینڈل‘‘ آکر منظر سے غائب ہوجائے اور لوگ اس کو صرف معمول کی بات تصور کریں وہاں پنڈورا بکس کی اہمیت چند گھنٹوں کے علاوہ زیادہ نہیں ہوسکتی کیونکہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہاں ’’Honest Corrupt‘‘ لوگ بھرے پڑے ہیں جیسے کوئی ایس ایچ او جو رشوت لیتا ہو اس کے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہوجاتی ہے کہ وہ غریب بندے سے رشوت نہیں لیتا مگر طاقتور سے پیسے لے لیتا ہے تو اس معاشرے میں ’’احتساب‘‘ یا ’’سکینڈل‘‘ بھی معمول کی بات بن کر رہ جاتا ہے۔
پانامہ لیکس کے بعد پنڈورابکس کے نام سے منظر عام پر آنے والی تحقیق کے بعد بڑی  نامورکاروباری، سیاسی ،ملکی اور بین الاقوامی شخصیات کی آف شور کمپنیوں کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی ہے۔ان خفیہ کمپنیوں کے بارے میں بڑے بڑے انکشافات سامنے آرہے ہیں لیکن عام آدمی اب تک شایدصرف یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر یہ آف شور کمپنیاں ہوتی کیا ہیں ؟یہ کام کیسے کرتی ہیں؟کیا آف شور کمپنیاں بنانے والے سب کے سب کرپشن میں ملوث ہیں ؟اس حوالے سے چند اہم شخصیات  کے حولے سے اسے سمجھا جا سکتا ہے۔  آف شور کمپنی ایسے ادارے کو کہتے ہیں جس کا مالک کسی اور ملک میں رہتاہو اور اس نے کمپنی کسی اور ملک میں قائم کررکھی ہو۔ عام طور پر ایسی کمپنیاں قائم کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے ملک کے قوانین و ضوابط اور حکومت کے خوف سے آزاد  رہ کر کاروبار کیا جاسکے کیونکہ اپنے ملک میں سیاسی مخاصمت یا کسی بھی اور وجہ سے کمپنی کے مالک کو کاروباری معاملات کے حوالے سے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ آف شور کمپنیاں قائم کرنے کا ایک اور مقصد کسی دوسرے ملک کی ٹیکس کی رعایت یا نرم قوانین سے فائدہ اٹھانا  بھی ہوتا ہے ۔ اپنے ملک کے ٹیکس کے سخت قوانین سے بچنا بھی ہوتا ہے۔آف شور کمپنیوں کا ایک اور اہم مقصد اپنے اثاثوں کو تحفظ دینا بھی ہے، چاہے وہ اثاثے قانونی طریقے سے کمائے ہیں یا غیر قانونی طریقے سے۔مثال کے طور پر کسی مالدار کمپنی کے خلاف مقدمہ درج کر کے احتساب یا تحقیقات  کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور فیصلہ آنے تک کمپنی اثاثوں اور ذاتی اکاؤنٹس منجمد کر دیے جائیں چاہے اس نے غیر قانونی کا م کیا ہے یا نہیں یا نہیں۔ اس لیے بہت سے لوگوں کے اپنی رقم کسی آف شور کمپنی میں منتقل کر دیں اب بات کر تے ہیں قانون کے مطابق، آف شور کمپنیاں قائم کرنا کوئی جرم نہیں ہے لیکن انہیں قائم کرنے والے افراد نے باقاعدہ طور پر اپنی ٹیکس ریٹرنز اور اثاثوں کی تفصیلات میں یہ واضح کرنا ہوتا ہے کہ فلاں فلاں کمپنی ان کے نام پر کام کر رہی  ہے۔پاکستان جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ کئی وجوہ کی بنا پر آف شور کمپنیاں بناتے ہیں لیکن ان سب کا مقصد ایک نہیں ہوتا اور نہ ہی سب اپنی کمپنیوں کی تفصیلات کو خفیہ رکھتے ہیں، لہٰذا یہ سمجھنا کہ کسی کی آف شور کمپنی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص یا خاندان مجرم ہے ایک غلط فہمی ہے۔ تاہم جن افراد اور خاندانوں نے ملک سے پیسہ چوری کر کے اور لوٹ کر آف شور کمپنیاں قائم کی ہوں اور  ان کی تفصیلات کو اس وجہ سے چھپایا ہوکہ ان کی چوری اور لوٹ مار منظر عام پر نہ آسکے ان کے خلاف بہرطور کارروائی ہونی چاہیے۔ لیکن اس کے لیے بھی قانون کا راستہ اختیار کیا جانا چاہیے اور کسی بھی شخص یا ادارے کو اس سلسلے میں اپنی ذاتی یا ادارہ جاتی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے کسی شخص یا خاندان کے خلاف کارروائی نہیں کرنی  چاہیے۔
پنڈورا باکس میں 90 سے زائد ممالک کی 29000 آف شورکمپنیوں کا پردہ فاش کیا گیاہے ۔ جن کی ملکیت 45 ممالک سے تعلق رکھنے والی 130 ارب پتی شخصیات  کے پاس ہے۔ آئی سی آئی جے کے مطابق پنڈورا پیپرز میں 14 آف شور سروس فرمز شامل ہیں۔ پنڈورا پیپرز کیلئے آئی سی آئی جے نے تقریباً 3 ٹیرا بائٹس کی خفیہ معلومات حاصل کیں۔ آئی سی آئی جے کے مطابق سب سے زیادہ لاطینی امریکہ کی کمپنی نے14ہزار شیل کمپنیاں اور ٹیکس ہیونز ٹرسٹ بنائے۔ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن اور آذر بائیجان کے صدر کے نام بھی شامل ہیں۔ اسی طرح کینیا کے صدر اوہورو کینیتا، چیک صدر آندریج بابیز نے آف شور کمپنی کے ذریعے 22 ملین ڈالرز کی جائیداد خریدی تھی۔  یوکرائن، کینیا اور ایکواڈور کے صدور نے بھی آف شورکمپنیاں بنا رکھی تھی ۔ پنڈورا باکس میں 6 بھارتی سیاست دانوں، چین کے2، یو اے ای کے11، روس کے 19، برازیل کے9، یوکرائن کے 38 اور نائیجیریا کے 10، برطانیہ کے 9 اور سعودی عرب کے پانچ سیاست دانوں کے نام شامل ہیں۔ اٹلی کے4، انڈونیشیا 2، فرانس کے 3، سپین کے5، پرتگال کے3 سیاستدانوں کے نام بھی شامل ہیں۔
 اپنے ملک سے پنڈورا باکس میں وزیرخزانہ شوکت ترین کی آف شور کمپنی جبکہ وفاقی وزیر مونس الٰہی اور سینیٹر فیصل واوڈا کی آف شور کمپنیاں سامنے آئیں۔ تحقیقات میں پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان کی آف شور کمپنی سامنے آئی جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار کے بیٹے کی آف شور کمپنی بھی پنڈورا باکس میں شامل ہے۔ پنڈورا باکس میں پیپلز پارٹی کے شرجیل میمن کی آف شور کمپنی بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی وزیرصنعت خسرو بختیار کے اہل خانہ کی آف شور کمپنی بھی پنڈورا باکس میں سامنے آئی ہے۔ وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی وقار مسعود کے بیٹے کی بھی آف شور کمپنی  کے مالک نکلے ہیں ۔جبکہ  اس کے علاوہ پنڈورا باکس میں کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران،کچھ بینکاروں، کاروباری شخصیات اور کچھ میڈیا مالکان کی آف شورکمپنیاں بھی سامنے آئیں ہیں۔ پاکستانی تاجر طارق شفیع‘ سہگل فیملی کے رکن طارق سعید ‘ مبین شیخ کا نام شامل ہے۔ خسرو بختیار کے بھائی عمر نے ایک ملین ڈالر کا اپارٹمنٹ والدہ کے نام کر رکھا ہے۔ دنیا بھر سے 336 سیاستدانوں کے نام پنڈورا باکس میں سامنے آئے۔ پاکستان کے 7 ‘ بھارت کے 6 اور روس کے 19 سیاستدانوں کی آف شور کمپنی ہے۔ برطانیہ اور آئر لینڈ کے 9 سیاستدانوں کا نام شامل ہے۔ سب سے زیادہ یوکرائن کے 38 سیاستدانوں کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ جبکہ اردن کے شاہ عبداللہ بھی ّف شور کمپنی بنانے والوں میںشامل ہیں۔خسرو بختیارکے بھائی کے علاوہ عارف نقوی اور کچھ کاروباری اور بینکاری شخصیات کے نام بھی شامل ہیں۔ یوکرائن ،کینیا، اور ایکواڈور کے حکمرانوں، اردن کے بادشاہ عبداللہ اور قطر کے حکمرانوں کے  علاوہ  چیک ری پبلک اور لبنان کے وزرائے اعظم آف شورکمپنیوں کے مالک ہیں۔سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے نام بھی آف شورکمپنی  بنانے والوں میں ہے۔ جبکہ گلوکارہ شکیرا، سابق بھارتی کرکٹر سچن ٹنڈولکر کے نام سے بھی آف شورکمپنی رجسٹرڈ ہے۔ روس اور آذربائیجان کے صدور بھی آف شور کمپنیوں کے مالک نکلے۔بھارت کے سرمایہ کار انیل امبانی کے نام سے  بھی آف شور کمپنیاں ہیں۔ ’’اب یہ پنڈورا بکس تو کھل گیا ہے لیکن کیا یہ بھی اب قصہ پارینہ بن جائے گا یا جن نعروں اور تبدیلی کے نام پر پی ٹی آئی کی حکومت وجود میں آئی۔‘‘  وہ اس پر آئندہ  کارروائی بھی کرے گی  کہ جس سے اس قسم کے پنڈورا بکس سے پاکستان واقعی محفوظ ہوجائے گا ان سوالات پرعوام کو عمران خان کی طرف سے جواب کیلئے  بے صبری سے انتظار ہے۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ای پیپر دی نیشن