فی الحال پختونخواہ پر گزارا کریں 

روسی فوج مشرقی یوکرائن کے  اہم شہر لیمان سے بھی پسپا ہو گئی۔ یوکرائن کی فوج نے اس فرار سے دو روز پہلے مقبوضہ لیمان پر حملہ کیا تھا جس میں روسیوں کا بھاری نقصان ہوا اور حملے کی شدت کے پیش نظر فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔ روس نے کہا ہے کہ ہم فرار نہیں ہوئے ‘ صرف پوزیشن بدلی ہے۔ یوکرائنی فوج جس علاقے سے بھی روسیوں کو مار بھگاتی ہے‘ روس کی طرف سے یہی بیان آتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لیمان ان چار علاقوں میں شامل ہے جن کے روس میں انضمام کا باقاعدہ اعلان صدر پیوٹن نے کیا ہے۔ ادھر انضمام کا اعلان ہوا‘ ادھر یوکرائن والوں نے لیمان چھین لیا۔ روس نے اس جنگ کے دوران یوکرائن کے جن مشرقی اور شمال مشرقی علاقوں کو قبضے میں لیا تھا‘ انہیں باقاعدہ طور پر ہڑپ کر لیا ہے۔ لیکن کئی علاقوں سے روس کو بھاگنا پڑا ہے۔ خفت اور شرمندگی مٹانے کیلئے اب صدر پیوٹن نے دھمکی دی ہے کہ یورپ نے یوکرائن کو اس جوابی یلغار سے نہ روکا تو وہ چھوٹے ایٹمی ہتھیار چلا دے گا۔ حالانکہ مبصرین کہتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے اور لیمان سے انخلا کے بعد ملحقہ علاقوں کا دفاع بھی خطرے میں ہے ۔حد تو یہ ہے چیچنیا میں پیوٹن کے کٹھ پتلی صدر رمیان قادروف نے بھی یہ بیان داغ دیا ہے کہ کمانڈروں سے تمغے چھین لئے جائیں۔
یوکرائن روس سے اپنے بہت سے علاقے واپس لے چکا ہے لیکن 15 فیصد یوکرائنی رقبہ اب بھی روس کے قبضے میں ہے۔ روسی فوج جنگ لڑنے کی اہلیت نہیں رکھتی ہے۔ وہ ماضی میں بھی کبھی جنگ نہیں لڑ سکی۔ اب پیوٹن کا مطالبہ دراصل یہ ہے کہ مغرب ہمیں جنگ جیت کر دے۔ یہ تو ویسا ہی مطالبہ ہے جو عمران خان کر رہے ہیں کہ ’نیوٹرل‘  مجھے واپس اقتدار میں لائے ورنہ قوم سے کہوں گا کہ انہیں کبھی معاف نہ کرے۔
ماضی کا قصہ بہت لمبا ہے۔ روس نے ایک جنگ جاپان کے ساتھ لڑی اور اسکی ساری بحری فوج تباہ ہو گئی۔ یہ بہت حیران کن جنگ تھی۔ روس کی ساری بحری طاقت بحیرہ بالٹک کے سمندروں سے نکلی۔ شمالی یورپ کا سارا ساحل عبور کیا۔ انگلش چینل سے گزری‘ سپین کے ساحلوں سے ہوتی ہوئی جبرالٹر (جبل الطارق) آئی‘ وہاں سے بحیرہ روم داخل ہوئی۔ نہر سویز‘ پھر خلیج فارس‘ پھر بحر ہند کو عبور کر کے آنبائے سلاکا کے راستے بحیرہ جنوبی چین اور وہاں سے جنوبی جاپان پہنچی۔ آدھی سے زیادہ فوج راستے میں ‘ باقی جنگ میں نابود ہو گئی۔ یہ 1905  کا واقعہ ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں روس ’’فاتحین‘‘ میں شامل تھا حالانکہ روسی فوج نے ناقابل تصور شکست کھائی تھی۔ ہٹلر کو روس پر ترس آیا‘ اس نے اپنی فوج سردیوں میں بھیج دی۔ برفباری اور ناقابل بیان سخت سرد موسم نے اس فوج کو فنا کر دیا‘ یوں روس کو ’’فاتح‘‘ کہلانے کاموقع  ملا۔ جنگ عظیم امریکہ نے جیت کر دی تھی۔
روسی فوج نہ ترکی کو شکست دے سکی نہ افغانستان کو۔ اب تاریخ کے تسلسل کا اگلا باب یوکرائن لکھ رہا ہے۔
پنجاب حکومت کے حامی ایک معاصر کی رپورٹ ہے کہ لاہور میں بچوں کے اغواء اور دیگر جرائم میں ناقابل تصور حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ آٹھ ماہ کے دوران 13 سال سے کم عمر 932  بچے اغواء کئے گئے اور جرائم کا حال یہ ہے کہ صرف پچھلے دو روز میں ڈکیتی چوری کی 600 وارداتیں ہوئیں۔
کچھ ہفتے پہلے ایک رپورٹ تھی کہ کراچی سے آدھی آبادی والے لاہور میں جرائم کراچی سے دوگنی تعداد میں ہو رہے ہیں۔
یہ کس ’’مومن‘‘ ادا کا غمزہ ’’دلسوز‘‘ ہے ساقی باقی جرائم تو رہے ایک طرف بچوں کے اغواء اور قتل کی وارداتیں پچھلے چار سال میں جس رفتار سے بڑھی ہیں‘ وہ ناقابل ادراک ہے‘ سال دوگنی‘ اگلے سال چوگنی کا حساب رہا۔ اور صرف لاہور نہیں‘ پورے صوبے میں بچوں کے اغواء کی وارداتوں کا طوفان آیا ہوا ہے۔ طرح طرح کی ڈرا دینے والی افواہیں پھیلی ہوئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسے ’’کلپ‘‘ وائرل ہیں جن میں بچوں کو اٹھانے والے بعض افراد کو پکڑ کر مارا پیٹا جا رہا ہے۔ اور یہ ویڈیوز کسی ایک نہیں‘ کئی شہروں کے ہیں۔ افواہیں چیر پھاڑ اور اعضا وغیرہ نکالنے کی بابت ہیں۔ تصدیق کرنے والا کوئی نہیں لیکن صوبہ خوف کی زد میں ہے‘ اس میں بھی شک نہیں۔
جو حال جرائم کے معاملے میں پختونخوا کا ہوا‘ وہ اب پنجاب کا ہے اور میڈیا کا حال یہ ہے کہ اس میں کوئی خبر ہے نہ انویسٹی گیٹو رپورٹ‘ پولیس خاموش ہے۔ سنا ہے کہ اغواء کرنے والوں کے خلاف کارروائی سے ڈرتی ہے‘ کہیں تبادلہ یا معطلی نہ ہو جائے۔
کل ہی یہ خبر بھی آئی کہ وہاڑی میں چھ ڈاکوؤں نے بچوں کے سامنے دو عورتوں سے زیادتی کی اور گھر بھی لوٹ لیا۔ کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ڈکیتی‘ قتل اور ڈکیتی آبرو ریزی کا چلن بھی عام‘ بے روک ٹوک اور بے خطر ہوتا جا رہا ہے۔
لکھنے کا کچھ فائدہ نہیں،بہر حال یہ بے فائدہ کام بھی کر ہی ڈالیں۔
خبر ہے کہ پختونخوا کا سرکاری خزانہ خالی ہو گیا ہے اور اس ماہ ملازموں کی تنخواہیں اور پنشنروں کی پنشن نہیں ملیں‘ خطرہ ہے کہ فی الحال ملیں گی بھی نہیں۔
ملک کو دیوالیہ دیکھنے کیلئے بے چین نگاہوں کو نوید ہو کہ کم از کم ایک صوبہ تو قریب قریب دیوالیہ ہو گیا۔ یعنی ان کی دعائیں اور نیک تمنائیں جزوی طور پر تو رنگ لائیں۔ مناسب ہے کہ اسی پر گزارا کریں کہ آگے کے حالات تمنا پوری ہونے کیلئے سازگار ہیں۔
پختونخوا میں نو برس سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور ایک تاریخ ساز کارنامہ یہاں ایسا ہوا ہے کہ دنیا میں اسکی مثال نہیں مل سکے گی۔ آزادی کے بعد سے نو برس پہلے تک پختونخوا کل 123 ارب کا مقروض تھا اور یہی قرضہ نو برس میں بڑھ کر 880 ارب ہو گیا۔
یعنی پون صدی میں صوبے نے جتنا قرض لیا‘ اس سے آٹھ گنا زیادہ قرض محض نو برس میں لیا گیا۔ بر سبیل تذکرہ‘  888 کے کمال ہندسے کی داد الگ سے دینا ضروری ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ شجرکاری بھی اس صوبے میں ہوئی۔ لگ بھگ ایک ارب درخت لگائے گئے۔ آڈٹ والوں نے ابھی چیکنگ شروع ہی کی تھی کہ بدقسمتی سے ایک کے بعد ایک کر کے ان سارے ذخیروں کو آگ لگنا شروع ہو گئی یہاں تک کہ درخت رہے نہ ریکارڈ‘ بس راکھ کے ڈھیر رہ گئے۔
بہرحال 888 ارب کے قرضے اپنی جگہ طلسماتی داستان ہیں‘ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی نے لکھی تو نام کیا رکھے گا؟ تواریخ عجائب‘ تذکرہ عزائب قسم کے نام تو پرانے ہو گئے۔
               

ای پیپر دی نیشن